عطاء تارڑ اور شزا فاطمہ کی شرمناک حرکت’ کیا ٹک ٹاکر مریم اکرام قومی اسمبلی کی نشست کی اہل ہے؟

0
342

تحریر: وقاص محمود

کیا ٹک ٹاکر مریم اکرام قومی اسمبلی کی نشست کی اہل ہے؟ عطاء تارڑ اور شزا فاطمہ کی شرمناک حرکت پر میِں تبصرہ کرنے پر مجبور ہوں۔

جس کمیونٹی کے فرد کو خصوصی طور پر منتخب کر کے پارلیمنٹ بھیجا جاتا ہے وہ پارلیمنٹ میں اس پوری کمیونٹی کا نمائندہ تصور ہوتا ہے۔ مثلاً جب کسی غیر مسلم کو خصوصی نشست دی جاتی ہے تو خیال رکھا جاتا ہے کہ اس عمل سے اس مذہب کے افراد خوش ہوں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایسا نمائندہ قابل قبول ہو۔ خدانخواستہ اگر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے کسی غیر مسلم کو اقلیتوں کی خصوصی نشست دی جائے تو کیا نتیجہ نکلے گا یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔

حال ہی میں مسلم لیگ ن کے رہنما عطاء تارڑ اور شزا فاطمہ نے بیہودہ پرینک کرکے مشہور ہونے والی ایک ٹک ٹاکر مریم اکرام کو انتہائی پراسرار طریقے سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کی رکن بنا ڈالا اور اس بیہودہ حرکت پر پوری مسلم لیگ (ن) انتہائی سیخ پا ہے۔

یہ ٹک ٹاکر خاتون کسی طور پر پاکستانی خواتین یا پھر ن لیگ کے سوشل میڈیا کی نمائندہ نہیں ہے۔ دو تین پلانٹڈ سیاسی ویڈیوز بنوانے سے لے کر وائرل کرنے تک کو سپانسر کیا گیا وہ کوئی ڈیجیٹل کا معیار نہیں ہے۔ کوئی بھی خاتون بیہودہ باتیں کرکے وائرل ہو جائے اور پھر ایک سیاسی پارٹی جوائن کر کے ایک دم قومی اسمبلی کی نشست لے اڑے تو یہ ایک ایسا شارٹ کٹ ہے جس پر کوئی عزت دار خاتون نہیں چل سکتی۔ عطا تارڑ اور شزا فاطمہ کا یہ عمل نہ صرف ن لیگ کے دیرینہ سوشل میڈیا ورکرز کے لیے انتہائی مایوسی کا سبب بنا بلکہ ن لیگ کے قائد نواز شریف کی اس پالیسی کے خلاف بھی کھلم کھلا بغاوت کا اعلان ہے کہ ہم نے سوشل میڈیا پر گالی کی سیاست نہیں کرنی اور تہذیب کا دامن نہیں چھوڑنا۔

الیکشن میں جہاں پوری الیکشن کیمپین کے دوران یہ لوگ صرف مریم اکرام کو ہی وائرل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے وہیں انہوں نے ن لیگ کے لیے زبردست کام کرنے والوں سے ملنا یا انہیں سپورٹ کرنا گوارا تک نہ کیا اور اسی طرح ان کا اپنا سوشل میڈیا چل نہیں پایا، مسلم لیگ ن کے الیکشن مہم کے اشتہار یہ لوگ نہیں چلا سکے اور اپنے سوشل میڈیا پر سوائے گالیاں کھانے کے انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ اب الیکشن گزرنے کے بعد ان کے پاس دیکھانے کو صرف مریم اکرام کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہاں تک بھی قابلِ برداشت تھا لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ اب اس مریم اکرام کو پورے ڈیجیٹل میڈیا کا نمائندہ بنا کر مسلط کرنے کی ایسی کیا مجبوری ہے؟ اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ شزا فاطمہ کا سوشل میڈیا چلانے والے کچھ نوجوان لڑکوں کی جانب سے ماضی میں ن لیگی خواتین ورکرز کا شرمناک استحصال ہوتے میں خود دیکھ چکا ہوں۔ انہیں منع کرو تو باز آنے کی بجائے یہ سب آپس میں مل جاتے ہیں۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ مریم اکرام بھی انہی لڑکوں کے زریعے ان سے رابطے میں آئی ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ مریم اکرام کے پاس کیا ہتھیار ہے، جس نے عطا تارڑ اور شزا فاطمہ کو باقاعدہ ایک سازش کے تحت ایسی واہیات حرکت پر مجبور کر دیا، جس کی یہ لوگ آجکل ٹی وی پر انتہائی بھونڈے طریقے سے صفائیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ جن سے اپنا دفاع نہیں ہو رہا انہوں نے پوری حکومت کا دفاع کیا خاک کرنا ہے؟۔

اپنے سوشل میڈیا کارندوں کو اس طریقے سے نوازنے کے چکروں میں پاکستانی خواتین بالخصوص خصوصی نشستوں پر آنے والی خواتین کی توہین کروانے اور پارٹی ضابطہ کی سنگین خلاف ورزی کرنے پر ان لوگوں کو سر عام معافی مانگنی چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کو اس معاملے پر مکمل چھان بین کرنی چاہیے اور ملوٹ افراد کو سزا دینی چاہیے!۔

نوٹ: (وقاص محمود سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں نیز وزیراعظم ہائوس ڈیجیٹل میڈیا ونگ کے سابق کوارڈینیٹر ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا کے مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں)۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں