تحریر: محمد سمیع شہزاد
اسرائیل اور حماس کے درمیان اس صدی کی سب سے خطرناک جنگ جاری، اسرائیل نے غزہ پر گزشتہ 6 روز میں 6 ہزار بم گرانے اور 4 ہزار ٹن بارود برسانے کا اعتراف کرلیا ہے۔ اسرائیلی حملوں اور بمباری کے نتیجے میں 4 سو سے زیادہ بچوں اور ڈھائی سو خواتین سمیت شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 14 سو سے زائد ہوگئی ہے۔ اسرائیل نے امدادی کارکنوں کو بھی نہ بخشا، پچاس سے زائد طبی عملے کے ارکان کو بھی شہید کردیا گیا۔
اسرائیلی فورسز کی جانب سے شام پر حملے کرکے دمشق اور حلب کے ہوائی اڈوں پر بمباری کے بعد رن ویز کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب حماس کے فوجی ترجمان ابو عبیدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے زمینی حملہ کیا تو اس کی فوج کو نیست ونابود کردیا جائے گا مگر اس جنگ کی وجوہات کیا ہیں اور مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے اہم مسجد اقصیٰ اتنی متنازع کیوں ہے؟ اس بارے میں کئی لوگ اب بھی واقف نہیں۔ مسجد اقصیٰ بیت المقدس کے پرانے شہر کے وسط میں ایک پہاڑی پر واقع ہے جسے مسلمان ’الحرم الشریف‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ واضح رہے کہ یروشلم تینوں مذاہب اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام ہے جبکہ مسجد اقصیٰ کو مکہ کی مسجد الحرام اور مدینہ کی مسجد نبوی کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔
الحرم الشریف کمپاوئنڈ میں مسلمانوں کے دو مقدس مقامات موجود ہیں جن میں ’ڈوم آف دی راک‘ اور اقصیٰ مسجد شامل ہیں جسے آٹھویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس پورے کمپاونڈ کو ’الاقصی مسجد‘ کہا جاتا ہے۔ تقریباً 35 ایکڑ رقبے پر محیط اس مقام کو یہودی ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں جبکہ ’ڈوم آف دی راک‘ کو بھی یہودی مذہب میں مقدس ترین مقام کا درجہ دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہاں کئی پیغمبروں نے عبادت کی جن میں حضرت ابراہیم، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت الیاس اور حضرت عیسیٰ شامل تھے۔مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اسلام کو سنہ 620 میں ایک ہی رات کے دوران مکہ سے الاقصی مسجد لایا گیا جہاں سے انھوں نے معراج کا سفر کیا۔ اسی لیے اسے مسلمانوں کے لیے بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہودیوں کا ماننا ہے کہ شاہ سلیمان نے تین ہزار سال قبل پہلی یہودی عبادت گاہ اسی مقام پر تعمیر کیا تھا۔ ان کے مطابق اس مقام پر تعمیر ہونے والی دوسری یہودی عبادت گاہ کو رومیوں نے 70 قبل از مسیح میں تباہ کر دیا تھا۔ سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اقصیٰ مسجد پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا اور مشرقی یروشلم اور ویسٹ بینک کے ساتھ ساتھ اسے اسرائیل میں ضم کر لیا تھا۔ اس سے قبل یہ علاقہ مصر اور اردن کے کنٹرول میں ہوا کرتا تھا تاہم اسرائیل کے اس قبضے کو بین الاقوامی سطح پر کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ الاقصیٰ کمپلیکس کے حوالے سے اسرائیل اور اردن کے درمیان 1967 کے معاہدے کے مطابق اردن کے وقف بورڈ کو مسجد کے اندر کے انتظام کی ذمہ داری ملی جبکہ اسرائیل کو بیرونی سکیورٹی کے انتظامات کی ذمہ داری ملی۔الاقصی میں موجود مسلمانوں کے مقدس مقامات کے سرکاری طور پر اردن کے ہاشمی بادشاہ ناظم الامور ہیں اور وہی آج بھی اسلامی وقف کے اراکین کو نامزد کرتے ہیں جن کے ذریعے یہاں کا نظام چلایا جاتا ہے۔
ایک معاہدے کے مطابق غیر مسلم افراد بھی اس مقام پر آسکتے ہیں لیکن مسجد کے احاطے میں صرف مسلمانوں کو عبادت کی اجازت ہے۔ اسرائیل کے مذہبی پیشواؤں نے یہودیوں پر ٹیمپل ماؤنٹ میں داخلے کی پابندی عائد کر رکھی ہے کیونکہ یہودیت کے عقائد کے مطابق یہ جگہ اتنی مقدس ہے کہ لوگوں کو یہاں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ اسرائیلی حکومت کے قواعد کے تحت مسیحی اور یہودی اس مقام کا دورہ بطور سیاح کرسکتے ہیں اور وہ بھی ہفتے میں صرف پانچ دن کے دوران چار گھنٹوں کے لیے۔ اس کمپلیکس کی مغربی دیوار کو ’ویلنگ دیوار‘ یا دیوار گریہ کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں یہودی عبادت کرتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شاہ سلمان کی تعمیر کردہ عبادت گاہ کا ایک یہی اصلی حصہ باقی بچا ہے۔ مسلمان اسے ’دیوار البراق‘ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پیغمبر اسلام نے معراج کے سفر کے دوران ’البراق‘ کو باندھا تھا۔ سنہ 2000 میں اس وقت اسرائیل کی مرکزی حزب اختلاف جماعت کے سربراہ ایرل شیرون دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ کے اراکین کے ہمراہ اس مقام پر آئے۔انھوں نے کہا کہ ’ٹیمپل ماؤنٹ ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہمارے ہاتھوں میں ہی رہے گا۔ یہ یہودیت کا سب سے مقدس مقام ہے اور ہر یہودی کو حق ہے کہ وہ یہاں آ سکے۔ اس پر فلسطین میں احتجاج ہوا جس کے بعد پرتشدد جھڑپیں ہوئیں اور الاقصی انتفادا کا آغاز ہوا جس میں تین ہزار فلسطینی اور ایک ہزار اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ مئِی 2021 میں فلسطینی شہریوں کی بے دخلی کے خلاف احتجاج کرنے والوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان اقصیٰ مسجد کے احاطے میں جھڑپیں ہوئیں جن میں 163 فلسطینی اور 17 اسرائیلی پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ اس کے ردعمل میں حماس تنظیم نے غزہ کی پٹی کی جانب سے یروشلم پر راکٹ داغے اور اسرائیل سے 11 دن تک تناؤ رہا۔ گذشتہ سال 30 سال بعد اسلامی ماہ رمضان اور یہودیت میں پاس اوور کی ایک ہفتہ طویل چھٹی ایک ساتھ شروع ہوئے تو اسرائیلی پولیس نے احاطے کو زبردستی یہودیوں کے لیے خالی کروانے کی کوشش کی جس پر پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔ یہودیوں کے لیے یہ عبادت گاہ قبلہ ومرکز اور ان کی دینی ودنیاوی عظمت رفتہ کے نشان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ دعا اور مناجات کے لیے وہ اسی کی طرف رخ کرتے ہیں اور اس میں سلسلہ عبادت کے احیا کی تمنائیں بر آنے کے لیے صدیوں سے ان کے سینوں میں تڑپ رہی ہیں۔
مسلمانوں کی وابستگی اور عقیدت بھی اس عبادت گاہ کے ساتھ معمولی نہیں ہے۔ یہ مقام انبیاء بنی اسرائیل کی ایک یادگار ہے جن پر ایمان اور جن کا احترام وتعظیم مسلمانوں کے اعتقاد کا جزو لاینفک ہے۔ انھوں نے اس وقت اس عبادت گاہ کو آباد کیا جب یہود ونصاریٰ کی باہمی آویزشوں کے نتیجے میں یہ ویران پڑی تھی۔ ان کا یہ عمل تمام مذہبی، عقلی اور اخلاقی معیارات کے مطابق ایک نہایت اعلیٰ روحانی اور مبارک عمل ہے جس پر وہ جتنا بھی فخر کریں، کم ہے۔
فریقین کے تعلق وابستگی کے دعوے کو درست مان لینے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس پر تولیت کا حق کس فریق کو ملنا چاہیے اور فریقین میں سے کس کے حق کو کس بنیاد پر ترجیح دی جائے؟ جہاں تک قانونی پہلو کا تعلق ہے، اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعواے تولیت کو ایک عملی وجہ ترجیح حاصل ہے۔ انھوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کی پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھا کر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی۔ نیز وہ بحالت موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں اور یہ ذمہ داری وہ گزشتہ تیرہ صدیوں سے، صلیبی دور کے استثنا کے ساتھ، تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اسرائیل میں انتہا پسند یہودی خصوصاً بیت المقدس سے دین اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کے سبھی نمونے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں نہ صرف یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت بن سکے بلکہ ٹیمپل ماؤنٹ پر تیسرا ہیکل تعمیر کر لیا جائے۔ مگر مسجد اقصیٰ کی موجودگی کے باعث وہ ا بھی تک اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے۔واضح رہے، یہ معاملہ دنیا کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ اگر انتہا پسندوں نے خصوصاً مسجد اقصیٰ کو شہید کرنا چاہا توعالمی جنگ ناگزیر ہوجائے گی۔
ہیکل سلیمانی کی دو مشہور ومعروف بربادیوں کا تذکرہ قرآن مجید نے بھی کیا ہے: ”اور ہم نے تورات میں بنی اسرائیل سے صاف کہہ دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی پر اتر آؤ گے۔ پس جب ان میں سے پہلا موقع آیا تو ہم نے تم پر اپنے نہایت سخت گیر اور طاقت ور بندوں کو مسلط کر دیا جو تمھارے گھروں کے اندر گھس آئے، اور یہ وعدہ پورا ہو کر رہنا تھا۔ پھر ہم نے ان کے خلاف تمھیں بالادستی کا موقع دیا اور مال واولاد سے تمھاری مدد کی اور تمھیں خوب جتھے والا بنا دیا۔ اگر تم نے بھلائی کا رویہ اختیار کیا تو اپنے ہی فائدے کے لیے، اور اگر بد چلن ہو گئے تو اپناہی نقصان کیا۔ پھر جب دوسرا موقع آیا (تو اسی طرح دشمنوں کو تم پر مسلط کیا جوتم پر چڑھ آئے) تاکہ تمھارے چہروں کو بگاڑ کررکھ دیں اور اسی طرح مسجد میں گھس جائیں جس طرح پہلی مرتبہ گھسے تھے اور جو چیز ان کے ہاتھ لگے، اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیں۔ توقع ہے کہ تمھارا رب تم پر پھر رحم کرے گا۔ لیکن اگر تم نے دوبارہ یہی رویہ اپنایا تو ہم بھی یہی کچھ کریں گے۔ اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔” (بنی اسرائیل ١٧:٤-٨)۔