تحریر: ماریہ چوہدری
یہ دن ہر سال مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر پاکستان اور پوری دنیا میں جذبے، جوش، عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے اور شہداء کے مشن مکمل کرنے، حق خود ارادیت کے حصول کا عہد کیا جاتا ہے۔
13جولائی 1931 کا دن کشمیر کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب مسلمانان کشمیر نے ڈوگرہ استبداد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ میدان کربلا اور امام حسین ؑ کی شاندار قربانی کی یاد تازہ کر دی۔
دین اسلام کی عظیم کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف اٹھنے والی تحریک شعلہ بن گئی۔
پھر سنٹرل جیل سرینگر کے بعد کشمیر کے مسلمان سراپا احتجاج تھے۔ اذان کا وقت ہوا تو مظاہرین نے اذان بلند کی۔
ڈوگرہ حکمرانوں کے ظالم محافظوں نے حکم پر فائرنگ کھول دی جس سے ایک نوجوان شہید ہوا ‘اس کے شہید ہوتے ہی ایک اور نوجوان اٹھا اور اس نے اپنے پیش رو کی جگہ اذان دینی شروع کردی۔ پولیس نے اس نوجوان کو بھی شہید کردیا۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہا اور اذان کی تکمیل تک 22 فرزندان اسلام شہید کر دیے گئے۔
اس ایمان افروز واقعہ نے پوری ریاست کشمیر میں آگ لگا دی اور کشمیر میں جدوجہد آزادی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ اہل کشمیر ہر سال 13 جولائی کو اسی واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اسے یوم شہدا کے طور پر مناتے ہیں۔
ان واقعات کا پسِ منظر کوئی فوری رد عمل نہیں تھا بلکہ سالوں سے کچلے ہوئے انسانوں کی ایک چیخ تھی۔ جس نے عوام کا خون چوسنے والے ڈوگرہ کے ایوان اقتدار کی دیواریں ہلادی تھیں۔ ظلم تلے کچلے ہوئے انسانوں کی ایک آواز تھی جو ڈوگرہ حکمرانوں کے اقتدار کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گئی۔ اس وقت تک مسلمانوں کے ساتھ سلوک کی حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کیلئے سرکاری ملازمت کے تمام دروازے بند تھے تجارت پر غیر مسلم چھائے ہوئے تھے کیونکہ انہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ مسلمان کسانوں اور کاشتکاروں کی حالت نگفتہ بہ تھی۔ ریشم، کاغذ، تمباکو، نمک، اناج و زعفران کی خرید وفروخت سرکاری تحویل میں تھی۔ ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت صرف ہندوﺅں کو تھی۔ گائے ذبح کرنے والوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے۔ فوج میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی مسلمان تعلیم میں پسماندہ تھے۔
یہ مجموعی صورتحال تھی جس سے مسلمان گزر رہے تھے۔
اس کے بعد 1931میں کچھ ایسے واقعات ہوئے جس سے مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا مسلمانوں کے عظیم دین اسلام کی توہین کی گئی۔ سری نگر جیل میں فرزندان اسلام جب اذان دے رہے تھے تو ان پر گولیاں برسائی گئی اذان کی تکمیل تک 22 فرزندان اسلام کو شہید کیا گیا۔
انگریز اور ہندو مورخین کے مطابق جتنے بھی شہید ہوئے سب کے سینوں پر گولیاں لگی تھیں۔ ان کے خون سے ایسی تحریک اٹھی اور سیاسی بیداری پیدا ہوئی اور برصغیر کی تیسری بڑی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔
یہ دن ہر سال مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر پاکستان اور پوری دنیا میں جذبے، جوش، عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ اور شہداءکے مشن مکمل کرنے، حق خود ارادیت کے حصول کا عہد کیا جاتا ہے۔
یومِ شہداء کے موقع پر ہم اہلِ کشمیر کیساتھ اور 13 جولائی1931 کے ان 22 شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں جو ڈوگرہ مہاراجہ کے سپاہیوں کیجانب سے پر امن مظاہرین پرگولیاں برسائے جانے پر منصبِ شہادت پر فائزہوئے۔
بھارتی جبر اور غیر قانونی تسلط کیخلاف کشمیریوں کی جدوجہد مزاحمت اور قربانیوں کی عظیم تاریخ ہے۔