ٹحریر: صفیہ حیات
پاکستان میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کے لئے زندگی تنگ اور پریشان کن ہورہی ہے۔ کیونکہ آج کی پڑھی لکھی لڑکی خودداری کے ساتھ جینا چاہتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک لڑکی نے خود کشی کرلی وجہ تھی لوگوں کا اس کے اکیلے رہنے پہ اعتراض اور شکوک شبہات جو سوچ کے معذوروں کا المیہ ہے۔
شادی کی ناکامی کے بعد وہ کسی جم میں بحثیت انسٹرکٹر کام کرتی تھی اور کرائے کے مکان میں رہتی تھی۔ وہ اپنی ذات میں پورا جی رہی تھی اور خوش تھی۔ مگر جس کسی کو پتہ چلتا کہ طلاق یافتہ ہے اور اکیلی رہتی ہے۔ پھر عجیب سوال و جوابات اور گھورنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ ایک دن اسلامی معاشرے میں خود داری سے جیتی لڑکی لولی لنگڑی سوچ کے ٹیڑھے میڑھے انداز سے طنز کے نشتروں کے زخم سہہ سہہ کر ہلکان ہوگئ اور خود کو ختم کرلیا۔
یہ ایک کہانی نہیں ہے بہت سی ہیں۔ ہمارے ہاں شوہروں والی عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ان جیسا پوتر کوئی نہیں۔ وہ اپنی رات جائز طریقے سے گزارتیں یہی سوچتی ہیں کہ یہ اکیلی رہنے والی لڑکیاں بھی ضرور کسی کے ساتھ سیٹ ہیں۔ تبھی نہیں گھر بسا سکیں۔
یہ نہیں جانتیں کہ ذہین عورتیں دنیا کا ہر کام کرسکتی ہیں مگر ایک مرد کی نوکری نہیں۔ دو غیر متوازن سوچیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں تو منافقت کیوں۔
اہل ہوش و خرد!
یقین کریں ان بیاھتا عورتوں کے سوال ایسے ہوتے ہیں کہ انسان سر پیٹ لے۔ اول تو اکیلی لڑکی کے لئے کرایہ کے گھر کا حصول ہی مشکل ہے۔ ہر مالک مکان فیملی کو گھر دینا چاہتا ہے کہ اکیلی لڑکی کو دیکھ کر لوگ باتیں بناتے ہیں اور ماحول خراب ہوتا ہے۔
میری ایک بیوٹی سیلون کی مالکہ لڑکی سے بات ہوئی جو اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ اب ہاتھ پھیلانے کی عادت نہیں رہی۔ بچپن سے ہی والد اور بھائیوں سے مانگتے شرم آتی تھی۔ اب شکر ہے ایم فل کے ساتھ پارلر چلاتی ہوں خوش اور مطمئن ہوں۔ مگر ہمسایہ میں رہنے والی آنٹیوں سے تنگ ہوں جو ہر وقت بالکونیوں میں دروازوں میں کھڑی میری آمد و رفت پہ دھیان رکھتی ہیں، اور شک بھری نظروں سے تاکتی ہیں کہ کون کس وقت آیا اور گیا۔
اور تو اور مرد مجھے سب کام چھوڑ کر دیکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس لڑکی کا کہنا ہے کہ یہاں بیمار سوچ مرد کے نام کا ہی ٹھپہ کیوں نہ ہو عورت کے نام کے ساتھ لگنا ضروری ہے۔ یعنی منافقت کرتے جائو۔ اب بتائیے ایسی بیمار سوچوں کا کیا کیا جائے؟