پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

0
72

تحریر: عاصم بشیر خان

یہ جان کر بہت تعجب اور اچنبھا ہوا کہ پاکستانی محققین جعلی تحقیقی مقالوں میں دوسرے نمبر پر ہیں، انہیں تو درجہ اول سے اوپر بھی کوئی درجہ ہے اس میں ہونا چاہیئے، بلکہ اُن کی بلندی درجات کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں۔

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

پاکستان میں نا صرف جعلی ریسرچ ہوتی ہے، بلکہ کاپی رائٹس کے تحفظ کا انتظام نا ہونے کے برابر ہے۔ خود میں نے کئی جگہ یہ معاملات بھگتے ہیں میرے لکھے ہوئے مقالوں سے گراف اور ڈیٹا کو لوگ بڑے دھڑلے سے اپنے نام سے اپنی تحقیق بتا کر اِستعمال کرتے رہے ہیں اور میں نے کئی ایک کو پکڑا بھی ہے۔

کئی ٹھوکروں کے بعد مجھے سمجھ آیا کہ کسی بھی گراف میں لیجنڈ اور سکیل کسی صورت گراف کے ساتھ نہیں بنانے، وگرنہ سرقہ کرنے والا/والی وہ ڈیٹا چوری کر کے اپنے نام سے یا منقول کر کے آگے چلا دے گا۔ بعینہ یہی بات میں نے عالمی بینک، یو این، آئی ایم ایف کی تحقیقی رپورٹس میں دیکھی ہے لیجنڈز شاز و نادر ہی گراف کے ساتھ دئیے جاتے ہیں۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے اور فقیر نے روزی روٹی کی تلاش میں زمانے کے سرد و گرم تھپیڑوں سے اتنا کچھ سیکھا ہے کہ اِن جعلی محقیقن پر ایک دبستان لکھا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں جعلی محققین کا ایک گینگ جس کے تمام ممبرز ایک دوسرے کی مدد سے جعلی تحقیق کو بڑھاوا دیتے ہیں اُن کی کارروائی ملاحظہ کیجئے۔

گینگ کا سرغنہ اور چند ممبرز ایک جعلی سا مقالہ کہیں چھاپتے ہیں اور دیگر ممبران سے کہتے ہیں کہ اپنی ہر تحقیق میں چاہے ضرورت ہو یا نہیں اس جعلی مقالے کا حوالہ لکھیں اس طرح اُن کی تحقیق زیادہ کوٹ ہوتی رہے، حقیقتا یہ حوالے جعلی ہوتے ہیں۔ پہلا جعلی محقق دوسرے سے اپنی تحقیق کی سائٹیشن کراتا ہے دوسرا یہی کام پہلے سے کرنے کی درخواست کرتا ہے.

من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو
یا آپ یوں کہ لیں
من ترا محقق بگویم تو مرا محقق بگو

مثلا پودوں پر ریسرچ میں خوامخواہ بجلی، کوئلے، راگ بہار، ستار، سڑک، وغیرہ وغیرہ کا ذکر ہوگا اس جعلی عمل کا مقصد سائٹیشن بڑھانا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ ایک منظم طریقے سے پاکستان میں چل رہا ہے۔

اسی طرح ایک سلسلہ اور ہے وہ یہ کہ جعلی محققین پیسے دے کر ریسرچ کرواتے ہیں یا اپنا ڈیٹا اکھٹا کراتے ہیں، یا اس کا تجزیہ کرواتے ہیں، یا کئی اساتذہ کو شاگردوں کی تحقیق ہڑپ کرتے بھی دیکھا ہے۔

شماریاتی ماڈلز کے جنون نے ایک عجیب جعلی پن کو فروغ دیا ہے جس کے لیے خادم نے
Beta concisousness
کی اصطلاح گھڑی ہے چاہے تحقیق کے کوئی معنی ہوں یا نہیں لیکن بھاری بھرکم ماڈلز بنا لائیں اب چاہے وہ کامن سینس کے خلاف ہو لیکن تحقیق مارکیٹ میں آ جائے گی۔

ایک اور مسئلہ جس کی وجہ سے جعلی تحقیق فروغ پا رہی ہے باہر ممالک کے مقالوں کو پاکستان کے ڈیٹا یا دو چار ممالک کے ڈیٹا پر ریپلیکیٹ کرنا۔
تحقیق برائے تحقیق کی جاتی ہے لیکن اُس کا لاجک سے سیاق و سباق سے کوئی دور پرے کا واسطہ نہیں ہوتا۔ جعلی محققین کی تحقیق نا تو مسائل کا ادراک کرتی ہے نا ہی تاریخ کا احاطہ، بس درمیان میں کسی پوائنٹ سے کوئی ڈیٹا پکڑا کچھ نا کچھ نتیجہ نکالا اور رپورٹ کر دیا۔

پاکستان سے باہر میرے ایک بہت قابل دوست ایک سو کالڈ بہت معتبر محقق کے کام کی جانچ پڑتال کر رہے تھے وہ اسی فیصد کے قریب کاپی پیسٹ تھا۔

جعلی محققین کی ایک قسم ‘پخ محقق’ بھی ہے جیسے گدھے کے ساتھ ایک چھوٹا گدھا بحیثیت پخ چل رہا ہوتا ہے کہ اُسے بار برداری کی عادت ڈالی جائے وہ سمجھتا ہے کہ گدھا گاڑی اس کے دم سے چل رہی ہے۔ ایسے کچھ اِبنُ الوقت کسی بڑے محقق کے ساتھ پخ بن کر لگ جاتے ہیں مثلا اصل محقق کا کام سو صفحے ہوگا وہ تین صفحے شامل کر کے انگلی کٹا کر اپنا نام بھی شہیدوں میں نام لکھوا لینے کا ملکہ رکھتے ہیں۔

جیسے دنیا سے گزر جانے کے بعد بلندی درجات کی دعا مذہبی فریضہ اور رسمِ دنیا ہے، بیعنہ ہی نیچر سائنس جرنل نے جعلی محققین کی باقاعدہ فاتحہ پڑھ کر بلندی درجات کو نوشتہ دیوار کر دیا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں