سیلاب میں یہ گاڑیاں کہاں گُم ہوگئیں ہیں

0
140

تحریر: جرنیل عباس ابڑو

پیپلز پارٹی کا عوامی لانگ مارچ جب کراچی سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہونا تھا تو لانگ مارچ کے قافلے میں ہزاروں ویگو، ریوو، ہائی ایس، بس اور کنٹینرز کا بندوبست کیا گیا تھا۔ جن پر شرجیل میمن اور شہزاد میمن کے فوٹو لگے ہوئے تھے۔ جو کہ میں نے بازات خود ٹویوٹا چورنگی بن قاسم کراچی سے لانگ مارچ کے قافلے میں گزرتے ہوئے دیکھے تھے جہاں ٹریفک پولیس نے عوامی مشکلات میں اضافہ کرتے ہوئے بلا جواز دوسرا ٹریک بھی 30 منٹ تک بند کیا ہوا تھا۔

سندھ فلڈ رلیف فنڈ کا چیئرمین بھی شرجیل میمن ہے مگر آپ نے کہیں بھی سندھ حکومت یا شرجیل انعام میمن کی تصویر لگی کشتی، ٹریکٹر ٹرالی، ریسکیو گاڑی یا کوچ نہیں دیکھی ہوگی جو عوام کو پانی سے خشکی اور سیلاب متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقام پر منتقل کرسکے۔

ملک بھر میں بارشوں کے بعد سیلاب کا پانی بپھرتے ہوئے زیادہ مقدار میں تھا لیکن سندھ کے آخر میں ڈوبنے والے علاقے وارھ، میہڑ، جوھی، کے-این شاہ، دادو سمیت سیہون کی شہری آبادیوں میں پانی کا داخل ہوکر زراعت کے نقصانات کی ذمہ دار حکومتِ سندھ اور ان علاقوں سے منتخب ہونے والے پیپلز پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں۔ جنہوں نے اپنی زرعی زمینوں کو بچانے کے لیے عوام کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا اور جس کی مثال  وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ کے دوران نادر مگسی اور مراد علی شاہ کے درمیان تلخ کلامی اور خود مراد علی شاہ کے بھائی کا بیان موجود ہے۔

مختصر سا سوال ہے کہ آخر کب تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس طرح عوام کو دربدری والی زندگی میں جھونکتی رہیں گی اور بیرونی امداد پر منحصر کریں گی؟؟۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں