تحریر: ناصر محمود بیگ
ایک طرف کراچی شہر کی تیز رفتار زندگی تھی اور دوسری طرف کچی آبادی کے تنگ اور تاریک مکان میں رہنے والے ایک گیارہ سالہ لڑکے پر زندگی تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی تھی۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ باپ کے مرنے کے بعد خاندان کی کفالت کا بوجھ اس کے نازک کندھوں پہ آن پڑا تھا۔ گھر میں صرف ایک بوڑھی ماں تھی نہ کوئی دوسرا بہن بھائی تھا اور نہ کوئی رشتہ دار جو اس کی پرورش کا ذمہ لے سکے۔ تیسری جماعت میں ہی اسکول کو خیر باد کہہ دیا۔ اب کمانے کے ساتھ ساتھ ایک اور ذمہ داری اس کی منتطر تھی۔ ابھی گیارہ سال کا ہوا تو ماں معذور ہو گئی۔ جب ماں کوبھوک لگتی اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلاتا۔ اس کو نہلاتا، اس کے کپڑے بدلتا۔ الغرض اپنی ماں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا۔ اس طرح آٹھ سال کا عرصہ گزر گیا۔ پھراس پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔ جب اس کی عمر انیس سال ہوئی تو اس کی ماں بھی دنیا سے چل بسی۔ اب تو اس کی دنیا ہی اجڑگئی ۔ اب اس بھری دنیا میں اس کا کوئی بھی اپنا نہیں تھا۔ اب بظاہر اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہا تھا۔ لیکن اس نے اپنا مقصد چنا اور خوب چنا۔ اس تین جماعتیں پاس بے ہنر اور بے آسرا انیس سالہ لڑکے نے ایک فیصلہ کیا ۔اس نے اپنے خدا کے سامنے اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ اپنی ساری زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرتا ہے۔ اب ایک طرف اس کے حالات اس کی غربت اور اس کی بے کسی اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔ کہ تم ایک یتیم اور غریب بچے ہو۔ تم کیا کر سکتے ہو؟ مگر دوسری طرف اس کا عظیم مقصد تھا جس نے ہر رکاوٹ کوعبور کرتے ہوئے اس کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اپنے مقصد کے حصول کی طرف پہلا قدم اس نے یوں اٹھایا کہ اس نے ایک ریڑھی لگائی اور پیسے جمع کرنے شروع کیے۔ تھوڑے تھوڑے کرکے اس نے پانچ ہزار روپے کما لیے۔ ان پیسوں سے اس نے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کی بنیاد رکھی۔ جس سے محلے کے غریب مریضوں کو مفت دوائی ملتی تھی۔ آہستہ آہستہ ڈسپنسری سے ترقی کرکے اس نے ایک یتیم خانہ کھول لیا۔ جس میں کراچی کے بے آسرا اور یتیم بچوں کی پرورش کی جاتی تھی۔ اس کے بعد ملک کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس قائم کردی۔ اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اسے پانچ عالمی اور گیارہ ملکی سطح کے ایوارڈز سے نوازا گیا۔
اس تین جماعتیں پاس آدمی کو ایک معروف غیر ملکی تعلیمی ادارے نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ اتنی ساری کامیابیوں کے باوجود دکھی انسانیت کا وہ مسیحا نے اپنا کوئی بینک بیلنس نہیں بنایا بلکہ ایک درویشانہ زندگی گزاری ۔ یقینی طور پر آپ جان گئے ہوں گے کہ یہ کہانی جس عظیم پاکستانی اور عظیم انسان کی ہے اس کو آج دنیا عبدالستار ایدھی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اس کی کہانی کو پڑھ کر میں نے جو اخذ کیا وہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد جتنا بڑا ہو نتیجہ بھی اتنا ہی بڑا حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ جب ہم اپنے زندگی کے گول سیٹ کریں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارا مقصد حقیر اور سطحی سا نہ ہو۔ ہم میں سے ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کوزندگی میں شاندار نتائج ملیں مگر ہمارے مقاصد ان نتائج کے مطابق نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ سوشل میڈیا پر سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ شہرت سے زیادہ بڑی چیز عزت ہے جو لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔ عزت کمانی پڑتی ہے جیسے پیسا کمایا جاتا ہے۔
اس کے لئے محنت اور مشقت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے خود کو زمانے کی گرم ہواﺅں میں جلانا پڑتا ہے۔ اب جس کا مقصد شہرت کی بجائے عزت ہوگا وہ محنت کے راستے پر چل کر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایک نہ ایک دن پا لے گا اور سستی شہرت کا طلبگار شارٹ کٹ ڈھونڈے گا۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم بڑا نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کسی عظیم مشن کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں۔ جیسے عبدالستار ایدھی نے ایک عظیم مشن کو اپنایا اور اس کا نتیجہ بھی ایک عظیم کامیابی کی صورت میں پایا۔ اس لیے ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی منزل کا مسافر بننے کے لئے تیار کریں۔