تحریر: جمشید گل بخاری
ٹیوٹا، ڈاہٹسو، ڈاٹسن، ہینو، ہونڈا، سوزوکی، کاواساکی، لیکسس، مزدا، مٹسوبشی، نسان، اسوزو اور یاماہا یہ تمام برانڈز جاپان کی ہیں جبکہ شیورلیٹ، ہونڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے۔ آپ اندازہ کریں اس کے بعد دنیا میں آٹو موبائلز رہ کیا جاتی ہیں؟ آئی – ٹی اور الیکٹرونکس مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ سونی سے لے کر کینن کیمرے تک سب کچھ جاپان کے پاس سے آتا ہے۔ ایل – جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے۔ سام سنگ کا ریوینیو 316 بلین ڈالرز ہے۔ ‘ایسر’ لیپ ٹاپ تائیوان بنا کر بھیجتا ہے جبکہ ویتنام جیسا ملک بھی ‘ویتنام ہیلی کاپٹرز کارپوریشن’ کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹرز اور جہاز بنا رہا ہے۔ محض ہوا، دھوپ اور پانی رکھنے والا سنگاپور ساری دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے، اور کیلیفورنیا میں تعمیر ہونے والا اسپتال بھی چین سے اپنے آلات منگوا رہا ہے۔ خدا کو یاد کرنے کے لئیے تسبیح اور جائے نماز تک ہم خدا کو نہ ماننے والوں سے خریدنے پر مجبور ہیں۔
دنیا کے تعلیمی نظاموں میں پہلے نمبر پر فن لینڈ جبکہ دوسرے نمبر پر جاپان اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے۔ انھوں نے اپنی نئی نسل کو ‘ڈگریوں’ کے پیچھے بھگانے کے بجائے انھیں ‘ٹیکنیکل’ کرنا شروع کردیا ہے۔ آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولز ان ہی تمام ممالک میں نظر آئینگے۔ وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈز کے سامنے ضائع کرنے کے بجائے حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اسوقت سنگاپور میں ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس میں گذرتا ہے باقی اسّی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائلز اور آئی – ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گزارتے ہیں۔
دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کا حال ملاحظہ کریں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، بی – ای، بی – کام، ایم – کام، بی – بی – اے، ایم – بی – اے، انجینئیرنگ کے سینکڑوں شعبہ جات میں بے تحاشہ ڈگریاں اور اس کے علاوہ چار چار سال تک کلاس رومز میں جی – پی کے لئیے خوار ہوتے لڑکے لڑکیاں کونسا تیر مار رہے ہیں؟ آپ یقین کریں ہم صرف دھرتی پر ‘ڈگری شدہ’ انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ تمام ڈگری شدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری کا حاصل محض ایک معصوم سی نوکری ہے اور بس۔
ہم اس قدر ‘وژنری’ ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر ہر سال 200 ارب روپے خرچ کررہے ہیں لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کو تیار نہیں ہیں ۔ آپ ہمارے ‘وژنری پن’ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی پیک کے انتظار میں صرف اس لئیے ہے کہ ہمیں چائنا سے گوادر تک جاتے 2000 کلو میٹر کے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اور پنکچر کی دوکانیں کھولنے کو مل جائینگی اور ہم ٹول ٹیکس لے لے کر بل گیٹس بن جائینگے، اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔
آپ فلپائن کی مثال لے لیں، فلپائن نے پورے ملک میں ‘ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ہاسپٹلٹی’ کے شعبے کو ترقی دی ہے۔ اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسسز کروائے ہیں، اور دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپائن کے سیلز مینز / گرلز، ویٹرز اور ویٹرسسز کی ہے۔ حتی کے ہمارا دشمن بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جاچکا ہے۔ آئی – ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں جبکہ آپ کو دنیا کے تقریبا ہر ملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلز مینز، گرلز، ویٹرز اور ویٹریسسز نظر آتے ہیں۔ پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں دس دس گنا زیادہ ہوتی ہیں۔
چینی کہاوت ہے کہ ‘اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھا دو’۔ چینیوں کے تو یہ بات سمجھ آگئی ہے۔ کاش ہمارے بھی سمجھ آجائے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ‘ہنر مند آدمی کبھی بھوکا نہیں رہتا ہے’۔ خدارا ! ملک میں ‘ڈگری زدہ’ لوگوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے ہنر مند پیدا کیجئیے۔ دنیا کے اتنے بڑے ‘ہیومن ریسورس’ کی اس طرح بے قدری کا جو انجام ہونا تھا وہ ہمارے سامنے ہے۔