تحریر: کامران شیخ
کہانی ابھی ٹھیک سے شروع بھی نا ہوسکی تھی کہ وہاں کھلبلی مچ گئی یہ اسٹوری سب کے موبائل فون میں پہنچ گئی صبح سے رات تک کہیں اشاروں، کہیں میسج اور کہیں کھلم کھلا اس کہانی کا تذکرہ ہوتا رہا۔ ڈر اور خوف کے مارے متاثرین پہلے تو ذو معنی انداز میں ایک دوسرے سے ذکر کرتے رہے اور پھر تھوڑا ڈر ہلکا ہوا تو کھل کے اور مزے لے لے کر کہانی کے الفاظ دہرائے جانے لگے، بالاٙخر یہ بات سب پر واضح ہوگئی کہ ڈرو نہیں یہ سچی کہانی سب کے موبائل فون، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود ہے اور تو اور ‘ایگزیکٹیو’ میں بھی یہ کہانی افسوس کے ساتھ سنائی جانے لگی۔
کہانی کا مرکزی کردار بلکہ بد کردار کبھی غصے سے لال پیلا ہوتا رہا اور کبھی اضطرابی کیفیت میں مبتلاء رہا آس پاس یہ کہتے بھی سنا گیا کہ مجھے تو نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں کوئی کہانی آئی ہے میں نے تو کچھ پڑھا ہی نہیں،،، میں تو اس قسم کی باتوں پر توجہ ہی نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ دراصل موصوف اپنی جھینپ مٹانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ اس کے اپنے موبائل فون میں بھی وہ کہانی موجود تھی
حبیب جالب لکھتے ہیں کہ
اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی،
پڑھ کے ناخوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا۔
تقریباً ڈیڑھ سال قبل جب یہ پہلے روز اس دفتر میں آیا تو اس وقت اس منصب پر کوئی اور شخص پہلے سے موجود تھا یہ سازشی شخص اس انسان سے منافقت والی ہنسی سے ملا اور اگلے چند ہی روز میں (پہلے سے سیٹ پر موجود) شخص کو کھڈے لائن لگاتے ہوئے اسے اپنا ماتحت باور کرانا شروع کردیا اور ویسے بھی اسے ‘اوپر والی سیٹ’ ہی کے لیے لایا گیا تھا اور یہی مالکان کی سب سے بڑی غلطی تھی اس دوران یہ چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ اس کی تو نااہلیت ہے اور نا ہی تجربہ یہ کیسے چلائیگا ادارے کو اور پھر چند ہی روز میں اس کی نااہلی کے بدترین اثرات سامنے آنے لگے کیونکہ یہ ہر تھوڑی دیر بعد کسی نا کسی شعبے کے چند افراد کو بلوا کر میٹنگ کرتا اور جس جس سے یہ میٹنگ کرتا جارہا تھا ان سب پر اس کی نااہلی عیاں ہوتی جارہی تھی ایسے ایسے مضحکہ خیز سوالات کرتا کہ پروفیشنل لوگ بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو رکھتے۔
اس ادارے میں آنے سے قبل یہ ایک معروف ادارے سے نکالا گیا یہ سازشی شخص اس ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف ایسی ایسی گھٹیا منصوبہ بندی کرتا رہا کہ شریف انسان تو اپنی آنکھیں اور کان بند ہی کرلے، پھر اس کی حرکتوں اور سازشوں کا ادارے کے سربراہ کو پتہ چل گیا اور اس کے خلاف انکوائری کا آغاز ہوا یہ دوران انکوائری کبھی کسی کے پاس بھاگتا تو کبھی کسی سے اپنی نوکری بچانے کی فریاد کرتا اور اسی دوران یہ شخص میرے پاس آیا اس وقت مجھے اس کی گھناونی سازشوں کا دور دور تک اندازہ نہیں تھا بہرحال یہ پریشان حال آیا تھا اس وقت اس کا میں نے بہت ساتھ دیا
حضرت علی کاقول ہے کہ ‘جس پر احسان کرو،اسکے شر سے بچو’ ۔۔ ۔ لیکن میں اور بہت سے دوسرے اس کے شٙر سے نا بچ سکے۔ (جاری ہے)