تحریر: شاہ زمان جونیجو
ڈفینس سے ملنے والی لاش جو کہ مشہور ادکارہ و ماڈل حمیرا اصغر خان کی پولیس کو ملی اس میں بہت سے پہلو کو بھی ابھی تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ملنے والی لاش کی باڈی پوزیشن اور اس کے اینگل کیا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ایک طبعی موت ہے یا قتل کر کے پھینکی گئی لاش؟

بطور کرمنل وکیل میرا 12 سال کا تجربہ بتا رہا ہے کہ جو لاش کی پہلی تصاویر سوشل میڈیا پر نشر کی گئی ہیں باڈی پوزیشن اور اینگل جس میں باڈی الٹی لیٹی ہوئی ہے اور اس کے ہاتھ بھی سینے پر موجود ہیں تو یہ پوزیشن کسی طبعی موت کی طرف اشارہ نہیں کر رہی ہے۔ آج کل ہائی کورٹ کی جانب سے ویب سائٹ پر ہر ایک کیس کی تفصیلات صرف نام لکھ کر سرچ کرنے سے ساری تفصیلات آجاتی ہیں تو میں نے بھی اپنے طور پر اس ‘رینٹ ایکزیکیوشن نمبر 8/24’ کی تفصیلات دیکھیں تو یہ کیس مالک فلیٹ صفیہ نامی عورت کی جانب سے کسی اور شخص میر واعظ خان کو پاور دیکر داخل کی گئی تھی اور اس رینٹ ایکزیکیوشن کو عدالت میں داخل کروانے کی تاریخ 26 اکتوبر 2024 کی ہے، مطلب کہ قتل یا موت واقع ہونے اور بجلی منقطع ہونے کہ کچھ ہی دنوں کے بعد جب کہ مالک فلیٹ صفیہ زوجہ اورنگزیب ناصر خان کے نام سے جب میں نے رینٹ کیس کا نمبر ہائی کورٹ ویب سائٹ پر سرچ کیا تو وہ کیس سرچنگ میں نہیں آرہا ہے۔ پولیس کو چاہیے کہ فلیٹ مالک صفیہ خان کی ٹریول ہسٹری بذریعہ ایف آئی اے چیک کرائی جائے اور اس کے نمبرز کی سی ڈی آر بھی بغور مطالعہ کیا جائے۔ اور فلیٹ کی جیو فینسنگ بھی کی جائے تو بہت سے حقائق سامنے آسکتے ہیں۔
دوسری جانب رینٹ ایکزیکیوشن داخل کرانے کے لئے جس بندے میر واعظ کو پاور آف آٹارنی دیا گیا ہے اس کا تعلق مالک فلیٹ کے ساتھ کیا ہے۔ میں نے اپنے طور پر جب یہ نام دیکھا تو یہ نام کوئی ‘کومن’ استعمال ہونے والا نام نہیں ہے تو جب اس نام کے ساتھ ہائی کورٹ کی ویب سائٹ سے کیس سرچ کئے تو مجھے انسداد دہشت گردی کے کیسز میں سزا یافتہ صرف ایک ہی ملزم میر واعظ خان ولد عبد الصمد کا نام ہی نظر آیا ہے۔ اب تو یہ پاور آف آٹارنی جو کورٹ فائنل میں ہوگی اسی سے واضع ہوسکتا ہے کہ یہ وہی میر واعظ ہے، جو انسدادِ دشتگردی کی عدالت سے سزا یافتہ ہے یا کوئی اور اور اس پاور آف اٹارنی میر واعظ خان کی مکمل تفتیش ہونی چاہیے، اس کے استعمال میں رہنے والے موبائل نمبرز کی سی ڈی آر سے کافی معلومات اس قتل کے بارے میں پتہ لگ سکتی ہیں۔

کرایہ ادا نہ کرنے پر قتل یا تشدد اس معاشرے میں ایک عام سی بات ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اداکارہ و ماڈل سے کرایہ کیس جیت جانے کہ بعد مالک فلیٹ صفیہ یا پاور آف اآٹارنی میر واعظ خان فلیٹ پر گئے ہیں کرایہ موصول کرنے اور کورٹ میں کیس جیتنے یا اس کے آرڈر کی کاپی دیکھانے اور فلیٹ زبردستی خالی کروانے اور اس دوران اداکارہ و ماڈل کا قتل کر دیا گیا ہو اور قتل کے مقدمے سے بچنے کہ لئے پھر یہ رینٹ ایکزیکیوشن داخل کرائی گئی ہو تاکہ پولیس اور بیلف کی نگرانی میں فلیٹ کو کھولا جائے اور قتل کے الزام سے بری رہا جائے۔

فلیٹ ایک ہائی پروفائل ایریا میں واقع ہے اور تو ظاہری بات ہے کہ مالک فلیٹ صفیہ بھی ایک امیرزادی ہی ہوگی اور ہماری سندھ پولیس کا تو ہم سب کو پتہ ہی ہوگا کہ قتل کے مقدمات اور شواہد کو مٹانا پیسوں کے عیوض ایک عام سی بات ہے۔
اس لئے ناہی اس کیس کا کوئی منتخب کردہ پولیس افسر میڈیا پر آیا ہے اور نہ ہی ایس ایس پی ساؤتھ کی جانب سے کوئی انکوائری یا تفتیشی ٹیم کو اصل شواہد اکٹھے کرنے کا کام سونپا گیا ہے اور نہ ہی اب تک کی گئی انکوائری یا تفتیش کے بارے میں میڈیا کو آگاہ کیا گیا ہے۔