عباسی صاحب! گواد، گوادریوں کے باپ دادا کی جاگیر ہے

0
12

تحریر: جمیل قاسم

جناب حنیف عباسی صاحب! آپ نے فرمایا کہ ‘گوادر پورٹ پاکستان کا ہے، کسی کے باپ دادا کا نہیں’۔ یقیناً آپ تاریخ سے ناواقف ہیں، لیکن ہم وہ لوگ ہیں جن کے آبا و اجداد نے گوادر کو بسایا، آباد کیا، اپنے خون سے سینچا، اور اسی مٹی میں گم ہوگئے۔ آپ کی یاد دہانی کے لیے چند سطور پیشِ خدمت ہیں۔

گوادر کوئی تھوک میں خریدا گیا علاقہ نہیں، بلکہ ایک تہذیب، ایک شناخت اور ایک قوم کی تاریخ ہے۔ اس کے باسی ہمیشہ سے گوادری بلوچ تھے اور رہیں گے۔

قدیم زمانے میں ہمارے آبا و اجداد اور پرتگالی قوم کوہِ باتیل پر آباد تھے۔ اُس وقت کہماڑیوں کے قبضے میں کوہِ باتیل کا دروازہ والا حصہ بھی تھا۔ جب کوہِ باتیل پر آگ لگی تو وہاں کی آبادی زمیک کے مقام پر منتقل ہوئی، جو ماہی گیروں کی شکار گاہ تھی۔ اس وقت کوہِ باتیل سمندر سے الگ تھا اور لوگ پہاڑ کے پیچھے بکریاں چرانے جاتے تھے۔ پھر جب سمندر کی سطح بلند ہوئی اور کٹاؤ کے باعث زمین کھسکنے لگی تو یہ آبادی کہماڑی محلے میں منتقل ہوگئی۔

اسی دوران اسماعیلی اور ہندو برادری بھی یہاں آکر آباد ہوئی۔ اسماعیلی برادری موجودہ ڈوم سیٹ کے قریب رہائش پذیر تھے، جہاں آج بھی ان کا قبرستان موجود ہے۔ ہندو برادری گوادر پورٹ کے علاقے میں رہتی تھی، جہاں ان کا مندر آج بھی تھرڈ ایف پی میرین کیمپ کے بالمقابل موجود ہے۔ بعد ازاں یہ تمام لوگ بھی کہماڑی محلے میں آ بسے۔

آج بھی گوادریوں اور پرتگالیوں کی سات سو سال پرانی قبریں گوادر میں موجود ہیں، جو ان کے تاریخی وجود کا ثبوت ہیں۔ پرانے قبرستان میں موجود گنبد والے واجہ کا تعلق عراق سے تھا، جن کا اصل نام عبد اللّٰہ عراقی تھا۔ یہاں چار سے پانچ مشترکہ مقبریں بھی موجود ہیں، جنہیں سالونک، بانور اور دیمدار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان سے جڑی داستانیں آج بھی گوادریوں کے سینے میں محفوظ ہیں۔

کہماڑی گوادری قوم کبھی بڑے تاجر ہوا کرتی تھی، جنہوں نے بحری راستوں سے ہندوستان سمیت کئی ممالک سے تجارت کی۔ اس تجارت میں اسماعیلی اور ہندو بھی شریک تھے۔

1950 کی دہائی میں سلطنتِ عمان کے جنوبی علاقوں میں ظفاری تحریک نے جنم لیا، جو بعد ازاں مارکسسٹ نظریات سے متاثر ہوئی۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے سلطنت عمان نے گوادر سے سپاہی چُن کر ظفار عمان بھیجے۔ چند سال بعد ان ہی میں سے ایک سپاہی گوادر میں تعینات کیا گیا، جس نے یہاں چھ مقامی افراد کو قتل کیا۔ اس واقعے نے عوام کے دلوں میں لاوا بھر دیا اور یہ غصہ ایک عوامی تحریک میں بدل گیا۔ لوگ عمانی ولی عہد کے محل کے سامنے سراپا احتجاج بن گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب گوادری عوام نے بلند آواز میں کہا کہ ہمیں بلوچستان سے الحاق چاہیئے!.

عباسی صاحب! گوادر خریدا نہیں گیا، لیا گیا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ گوادر روپوں میں تول کر پاکستان کے ہاتھ آیا تو آپ غلط فہمی میں ہیں۔ گوادر کو سلطان سعید بن تیمور نے عوامی مطالبے پر بغیر کسی شرط کے پاکستان کے حوالے کیا۔ اس وقت کے بلوچ رہنما سید ظہور شاہ ہاشمی، مجید سہرابی اور دیگر گوادر کے معتبرین عمان کے دربار میں گئے اور عوامی خواہش پیش کی جسے سلطان نے تسلیم کیا۔ پاکستان نے گوادر کی زمین نہیں، بلکہ سلطنت عمان کے مقامی اثاثے خریدے، جن میں عمارات اور انفراسٹرکچر شامل تھا، زمین نہیں۔

یاد رہے جاتے وقت سلطنت عمان نے اپنے شہریوں کو اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو عمان چلے جائیں، مگر اکثریت نے اپنے گوادر کو ہی چُنا۔ ستمبر 1958 میں والی گوادر کی رہائش گاہ چارپادگو، جہاں آج گوادر پریس کلب واقع ہے پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔ ناکو حسین اشرف جیسے مقامی رہنما اس لمحے کے گواہ ہیں، جنہوں نے کھمبے پر چڑھ کر عمانی پرچم اتارنے کے دوران اپنے دانت توڑ ڈالے۔ پاکستان کی طرف سے نیوی کے لیفٹیننٹ سروری نے پرچم کشائی کی۔

گوادر، گوادریوں کی جاگیر یا دولت نہیں بلکہ ان کی شناخت ہے۔ گوادری لوگ نہ بکے، نہ جھکے۔ ان کی زمینیں، ساحل اور پہاڑ کسی منڈی میں فروخت نہیں ہوئے۔ یہ علاقہ ان کی نسلوں کی وراثت ہے، جو ان کے خون میں رچی بسی ہے۔

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ‘یہ کسی کے باپ دادا کی جاگیر نہیں’، تو اُسے گوادر کی ان قبروں کی زیارت ضرور کرنی چاہیے، جن میں وہ بزرگ دفن ہیں جنہوں نے بغیر کسی ذاتی مفاد کے صرف ایک خواب کی تعبیر کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا تھا۔

عباسی صاحب! گوادر صرف بلوچستان کا نہیں، یہ گوادریوں کی زندگی ہے۔ آپ کے بیان نے زخموں کو چھیڑا ہے، لیکن شاید یہ ضروری تھا تاکہ آپ اور آپ جیسے دیگر لوگ جان لیں کہ یہاں کے لوگ صرف پتھروں کی تجارت نہیں کرتے بلکہ تاریخ، غیرت اور شناخت کے امین ہیں۔

اس علاقے کو صرف ایک بندرگاہ نہ سمجھا جائے بلکہ ان لوگوں کو بھی پہچانا جائے جن کی قربانیوں سے گوادر آج پاکستان کا حصہ ہے۔ افسوس کہ آج بھی یہاں کے باسی پانی، بجلی، تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں۔ اگر کچھ دینا ہے تو صرف الفاظ نہیں، کچھ عملی اقدامات بھی دکھائیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں