تحریر: ملک عبدالعزیز
عصر حاضر کی ترقی کا راز سائنس میں پوشیدہ ہے اور جدت و اختراع نے انسانی زندگی کو پرآسائش بنا دیا اور زندگی کے تمام شعبے ان سہولیات سے مزین ہیں۔ انسان ایک پر لطف اور پرکیف زندگی بسر کر رہا ہے۔ آج انسان خلا کی وسعتوں کے ساتھ چاند کو تسخیر کرکے بیٹھا ہوا ہے اور مریخ پر کمند ڈالنے کی تیاری کیے ہوئے ہے۔ ایسی سائنسی ترقی کی بدولت انسان نے ایسے ہتھیار بنا لیے ہیں جو کرہ ارض کو منٹوں میں نست ونابود کر سکتے ہیں اور انسانی وجود کا تقریبا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ موجودہ دور کی ترقی میں پہیہ سب سے بڑی ایجاد تھی لیکن اس پہیہ کو چلانے کے لیے توانائی کی ضرورت تھی لہذا دنیا کی ترقی میں توانائی کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ توانائی جو تحریک کو جنم دیتی ہے اور یہی تحریک انقلاب لانے کا باعث بنتی ہے، انقلاب چاہیے معیشت میں ہو یا ثقافت میں یا سیاست میں آس سے نئی جدتیں جنم لیتیں ہیں۔
قدرت نے توانائی کے حصول کے کئی زرائع پیدا کیے ہیں، جن میں خام تیل جس سے پیٹرولیم کی مصنوعات پیدا ہوتیں ہیں اور اسی تیل کی وجہ دے برقی توانائی حاصل ہوتی ہے، جس سے مشینیں چلتیں ہیں اور جب یہ مشینیں متحرک ہوتیں ہیں تو روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ روزگار کے موقعے کے ساتھ اشیائے صارفین اور اشیائے سرمایہ پیدا ہوتیں ہیں جو خواہشات کی تکمیل کے ساتھ برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کے حصول کا باعث بنتی ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کے ذرائع میں سورج کی حرارت آگ پانی اور ہوا کی طاقت سے بھی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ انسان نے انہیں قدرتی زرائع کو استعمال میں لا کر جدت و اختراع اور سائنسی ترقی کی بدولت بجلی کو پیدا کیا، جس کی وجہ سے جدید دنیا کی معاشی ترقی کے ساتھ ہماری راتیں دنوں میں بدل گی بجلی کی پیدوار کے کئی زرائع ہیں جن میں تھرمل زرائع سے بجلی پیدا کرنے والی ٹربائن کو چلا کر بجلی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن یہ زریعہ پیداوار مہنگا ہے۔ جس کی وجہ سے پیداواری آشیاء مہنگے داموں پیدا ہونگیں جو کہ مسابقت کے اس دور میں بین الاقوامی سطح پر دیگر ممالک کی آشیاء کا مقابلہ نہ کر سکیں گیں۔ دوسرا زریعہ ہائیڈرو کا ہے جو سستا زریعہ ہے لیکن دنیا کو اس وقت پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستان 2030 تک اُن ممالک میں شامل ہو جائے گا جن میں پانی کی قلت ہو گی اور اس دور میں جنگیں پانی کی وجہ سے لڑی جائیں گیں، ایٹمی زرائع سے بھی بجلی کا حصول ممکن ہے اور اکثر ممالک ایٹمی زرائع سے بجلی حاصل کر رہے ہیں لیکن یہ زریعہ بھی مہنگا ہے اور اس میں تابکاری کے اثرات کا خدشہ ہوتا ہے۔ پن بجلی کے ذریعے بھی بجلی حاصل کی جاتی لیکن یہ اُن علاقوں میں حاصل کی جاتی ہے جہاں پر ہر وقت ہوا کے جھگڑ چلتے ہوں، شمشی توانائی کے زریعے بجلی کا حصول سب سے آسان ہے یہ بات مشاہدات کا حصہ ہے کہ جن ممالک کے پاس توانائی کے بہتر زرائع تھے انہوں نے معاشی ترقی کے میدان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جیسے چائنہ جس کے زرمبادلہ کے زخائر اس وقت اڑھائی ہزار ارب ڈالر سے بھی زائد ہیں۔ اسی طرح جاپان مشرق واسطی کے وہ ممالک جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اُن کی مضبوط معیشتیں اس بات کی غمازی کر رہیں ہیں اور ان ممالک میں بسنے والے افراد کا معیار زندگی بلند ہے۔ اس کے علاوہ تیل کی دولت سے مالا مال ممالک توانائی کے اس ذریعے کو معاشی معاملات کے ساتھ ساتھ سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے رہے ہیں جیسے چند دھائیوں قبل فلسطین اسرائیل جنگ میں عرب ممالک نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرکے امریکہ کو جو اسرائیل کا بڑا حامی تھا، گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔
چائنہ جو پوری دنیا کو موجودہ دور میں معاشی میدان میں چیلنج کرتا نظر آتا ہے، اس نے توانائی کا ذریعہ بجلی کے سستے ترین حصول کے لیے مصنوعی سورج کی تیاری کا تجربہ کیا ہے، جس سے لامحدود ستی بجلی پیدا کی جا سکے گی۔ چینی سائنسدانوں کے مطابق اُن کا مصنوعی سورج آئندہ سال کام شروع کر دے گا اور اس مصنوعی سورج کا درجہ حرارت 10 کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ ہوگا یہ (ای اے ایس ٹی) ری ایکٹر نیو کلیر فیوژن کا عمل شروع کر دے گا، جس سے بجلی بنائی جاسکے گی جو کہ ایک تاریخی پیش رفت ہوگی۔ اس مصنوعی سورج کا پلازما الیکٹرون اور آئیزے سے تیار کیا گیا ہے اور چائنہ میں موجود ٹوکا میک ڈیوائسز نے اپنے مرکزی پلازما (کور پلازما) میں الیکٹون کا درجہ حرارت 100 ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جبکہ آئن درجہ درجہ حرارت کو 50 ملین سینٹی گریڈ تک پہنچائے گا، آئن اس ڈیواس میں بجلی تیار کرے گا ڈوان ژورد کے مکمل فعال ہونے پر اس پروجیکٹ کے ذریعے سورج سے سات گنا زیادہ گرمی حاصل کی جاسکے گی۔
اگر یہ تجربہ کامیاب ہوگیا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیچر سے چائنہ کی چھیڑ چھاڑ سے نیچر تبدیل ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں لامحدود سستی مستقل بجلی کے حصول کی راہ ہموار ہو سکے گی، یوں دنیا توانائی کے معاملے میں نئے دور میں داخل ہو جائے گی۔ اسی طرح گاڑیوں کے معاملے میں ایندھن کے استعمال میں آہستہ آہستہ کمی لائی جا رہی ہے شنید ہے کہ 2030 تک ترقیافتہ ممالک میں کاروں میں مائع ایندھن کی بجائے بیٹریوں کے ذریعے توانائی مہیا کی جائے گی، جو کہ نہ صرف ماحولیات میں خرابی کا باعث بننے والی گیس کا خاتمہ ہوگا بلکہ اس سے اوزن کی سطح متاثر نہ ہوگی، اس سلسلہ میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے کام شروع کر دیا ہے اور آج نا صرف یورپ بلکہ ایشیاء جس میں پاکستان بھی شامل ہے الیکٹرک بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں تیزی سے پرموٹ ہو رہیں ہیں کیونکہ یہ سستا ترین توانائی کے زریعے سے کم خرچ ہونے کے ساتھ ماحول دوست بھی ہیں اور لاگت میں کم قیمت ہیں۔ یہ گاڑیاں تقریبا 120 کلو میٹر سے 200 کلو میٹر تک کا سفر فی بیٹری چارج کے حساب سے کر رہیں ہیں، اور ان بیٹریوں کو چارج کرنے کے لیے پیٹرول پمپس کی طرز کے بیٹری چاجر پمپس بھی بنائے جا رہے ہیں۔ جہاں پر آدھے گھنٹے میں یہ بیٹریاں چارج ہو سکیں گیں یہ سائنسی جدت و آختراع کا ایک بڑا انقلابی قدم ہے۔