حاصل کلام: طاہرمحمود اعوان
پی ڈی ایم بنا تو موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے تھا لیکن پھر کچھ دیدہ اور کچھ نادیدہ قوتوں اور حالات نے اسے چوک چوراہوں سے ہانک کر واپس ایوانوں میں پہنچا دیا۔ وہی ایوان جسے اپوزیشن جماعتیں دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کرچکی تھیں۔ اسے حکومتی حکمت عملی کہہ لیں یا حالات کی ستم ظریفی کہ حکومت کیخلاف گیارہ جماعتی اس اتحاد کو گزشتہ چھ ماہ کے دوران مختلف حیلوں بہانوں کامیابی سے انگیج کیا جاتا آرہا ہے۔ پہلے ضمنی انتخابات پھر سینیٹ الیکشن نے اپوزیشن کی توجہ اصل مشن سے ہٹاکر عہدوں اور نشستوں کی بندر بانٹ کی طرف کردی۔ اگر چہ اس طرح پی ڈی ایم کو پارلیمانی میدان میں کچھ کامیابیاں ضرور ملی ہیں لیکن یہ جزوی کامیابیاں اس مقصد کا نعم البدل نہیں کہی جاسکتی جس پر اس اتحاد کی بنیاد کھڑی کی گئی تھی۔ ضمنی الیکشن میں سوائے نوشہرہ کے اپنی ہی نشستیں واپس جیت جانا اور سینیٹ الیکشن میں ایک سیٹ پر اپ سیٹ اتنا بڑا معرکہ نہیں جتنا تاثر میڈیا میں پیش کیا گیا۔ اس فیز کا نکتہ عروج سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی چیئرمین اور سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے مرزا محمد آفریدی ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر حکومتی امیدوار ہیں جبکہ اپوزیشن نے مشترکہ طور پر یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین اور جے یو آئی کے عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین کے لئے میدان میں اتارا ہے۔ سینیٹ میں اس وقت 26 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت ہے اس لحاظ سے دونوں عہدوں کے لئے تحریک انصاف کے کسی سینیٹر کا امیدوار نہ ہونا حیرانی کی بات ہے تاہم اعدادوشمار کا کھیل کچھ اس طرح کا ہے کہ حکومت کسی ایک بھی اتحادی کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دونوں عہدوں پر غیر پی ٹی آئی امیدواروں کی نامزدگی ظاہر کرتی ہے کہ بادی النظر میں حکومت نے بڑے ایوان کو اپوزیشن کے ہاتھ جانے سے بچانے کے لئے قربانی دی ہے۔ یہی صورتحال اپوزیشن اتحاد کی ہے، پیپلزپارٹی کے پاس ایوان میں 20 جب کہ ن لیگ کے اٹھارہ ارکان ہیں، اصولاََ دوسری بڑی جماعت ہونے کے ناطے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ ن لیگ کو ملنا چاہے تھا لیکن حکومتی جیت کے خوف اور کسی بھی قیمت پر حکومت کو نیچا دکھانے کی نیت نے ن لیگ کو بھی قربانی پر مجبورکردیا، یوں جے یو آئی اپنی پانچ نشستوں کے بل پر ڈپٹی کے لئے نامزد ہوگئی۔
اسحاق ڈار اور جماعت اسلامی کو نکال کر دیکھیں تو اس وقت تک اپوزیشن کے پاس بظاہر 50 جب کہ حکومتی اتحاد کو 48 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ جمعہ کی شام تک فیصلہ ہوجائے گا کہ ایوان بالا میں کس کا پلڑا بھاری ہوگا تاہم بظاہر کسی کی جیت کی پیش گوئی کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ یوسف رضا گیلانی تگڑے امیدوار ہیں اور انہیں پی ڈی ایم کی پوری سپورٹ حاصل ہے لیکن صادق سنجرانی کو اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور موجودہ چیئرمین سینیٹ ہونے کا ایج ہے۔ ڈپٹی چئیرمین کی نشست پر حکومت نے اپنے امیدوار کا اعلان الیکشن سے محض ایک روز قبل کیا ہے۔ مرزا محمد آفریدی جن کا تعلق سابق فاٹا سے ہے انہیں اپنی کمپئن کرنے کے لئے نہ ہونے کے برابر وقت ملا ہے جب کہ اپوزیشن کے عبدالغفور حیدری کئی روز سے اپنی لابنگ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی نشست میں سے ایک پر حکومت اور دوسری پر اپوزیشن کامیاب ہوجائے۔ اگر چیئرمین کی سیٹ پر صادق سنجرانی اور ڈپٹی پر عبدالغفور حیدری کامیاب ہوتے ہیں تو سینیٹ کے دونوں بڑے عہدے بلوچستان کے پاس چلے جائیں گے، آئین اور قانون میں ایسی کوئی ممانعت تو نہیں کہ دونوں عہدے کسی ایک صوبے کے پاس نہ ہوں تاہم یہ اب تک کی پارلیمانی روایت کے خلاف نظر آتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کی صورت میں حکومت کی مشکلات میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ اعتماد کی تحریک جیتنے سے وزیراعظم اور حکومت کو جو اعتماد ملا ہے وہ بھی زائل ہوجائے گا۔ اگر دونوں حکومتی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں تو اپوزیشن کا غصہ اور فرسٹریشن بڑھ سکتی ہے، اس صورت میں اپوزیشن کی توجہ واپس جلسوں جلوسوں، لانگ مارچ اور دھرنوں کی طرف پلٹ جائے گی جس کا ملک کسی صورت متحمل نہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کے دونوں امیدواروں کی کامیابی حکومت کو کمزور کردے گی جس کا بھی ملک متحمل نہیں ہوسکتا، اس صورتحال میں سب سے آئیڈیل صورتحال تو یہی نظر آتی ہے کہ ون ون سیچوایشن پیدا کی جائے اور ایک عہدہ حکومت اور دوسرا اپوزیشن کے پاس آجائے۔ پیپلزپارٹی جو کہ پہلے ہی موجودہ سیٹ اپ کو گرانے کے حق میں نہیں، سینیٹ کامیابی کی صورت میں وہ اپنی توجہ مزید پارلیمنٹ کی طرف کر لے گی۔ اس طرح اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ اتحاد کا یہ شیرازہ ہی بکھر جائے۔ دوسری جانب اگر اپوزیشن صرف ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر کامیاب ہوتی ہے تو اس صورت میں سب سے ذیادہ سیاسی اضطراب کا شکار مولانا فضل الرحمن کو کچھ قرار مل سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سسٹم میں کچھ حصہ ملنے کے بعد ان کے لب و لہجہ میں کچھ تبدیلی آجائے۔ ہر دو صورتوں میں اس الیکشن کے بعد پی ڈی ایم کمزور ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ اس صورتحال میں ہر فریق کو کچھ نہ کچھ ملتا نظر آرہا ہے۔ پی ڈی ایم کے قیام سے اب تک اگر کوئی جماعت محض خالی داماں ہے تو وہ ن لیگ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور احتجاجی تحریک کیا رنگ لاتی ہے۔