رات کے اندھیرے میں: وجہ نورا کُشتی یا پھر ایکسٹینشن۔۔ ۔ ۔

0
65

تحریر: مدثر غفور

رات کے اندھیرے میں نواب شاہ کی چوکھٹ پر مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے متھا ٹیکا تو سندھ کے گلوکار کا وہ گانا یاد آگیا کہ ‘رات کے اندھیرے میں جب کسی حسینہ کے گورے گورے ہاتھوں کی چوڑیاں کھنکتی ہیں’ لیکن اس ملاقات میں کیا کھنکا؟ اب تک عوام کو معلوم نہیں ہوسکا کہ صدر آصف زرداری نے رات گئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماوں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو شہر کراچی کے بجائے نواب شاہ ہی کیوں بلایا؟

لاہور اور کراچی کے ترقیاتی کاموں پر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی رہنماوں کے درمیان میڈیا میں جاری بیان بازی پر صدر آصف زرداری دوبئی سے ایوان صدر اسلام آباد کے بجائے کراچی پہنچے اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو کراچی بلا لیا، محسن نقوی سے ملاقات کے بعد صدر آصف زرداری نواب شاہ روانہ ہوگئے۔ چند گھنٹوں کے بعد نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق خصوصی طیارہ میں اسلام آباد سے کراچی پہنچے اور محسن نقوی کی قیادت میں تینوں شخصیات نواب شاہ روانہ ہوگئیں۔ نواب شاہ میں صدر زرداری سے 3 ‘اہم بڑوں’ کی ملاقات کے بعد سب شخصیات اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئیں۔

اس ملاقات کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کراچی یا لاہور میں ترقیاتی کاموں پر میڈیا میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی لڑائی جاری تھی تو یہ ملاقات کراچی کے بجائے نواب شاہ میں کیوں ہوئی؟

صدر آصف زرداری کے پاس مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کو دن میں کراچی میں ترقیاتی کام دکھانے کا موقع تھا، جب (ن) لیگ کے سینئر رہنمائوں کو کراچی کے روڈ سے گزار کر شہر کی سٹرکیں دکھائیں جاتیں لیکن انہوں نے رات کے اندھیرے میں نواب شاہ کی ترقی دکھائی، جو کسی نے نہیں دیکھی۔

پاکستان میں ستمبر کے بجائے نومبر کا مہینہ ستمگر ہوتا ہے اور نومبر کا مہینہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں فلحال اہمیت کا حامل ہے، نومبر میں سردی کی شروعات میں سیاسی موسم گرم ہوجاتا ہے اور یہ روایت چند دہائیوں سے دیکھی گئی ہے، جب آرمی چیف کی 3 سالہ مدت ملازمت پوری ہوتی ہے اور پھر نئے آرمی چیف کی تعیناتی ممکن ہوتی ہے۔

تحریک انصاف دور حکومت میں آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ باجوہ کی ایکسٹینشن پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی تھی، جس نے جنرل باجوہ کی دوڑیں لگوادیں تھی اور اجنبی بتاتے ہیں کہ بیرسٹر فروغ نسیم کے ساتھ جنرل باجوہ اپنی توسیع کیلئے درخواستیں تیار کرواتے رہے۔

شہباز حکومت نے قومی اسمبلی میں 26 آئینی پاس کروائی اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 3 سے بڑھا کر 5 سال کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل منظور کرلیا اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع والے سلسلے کو ختم کرکے باقاعدہ عہدے کی مدت مقرر کی۔ منظور ہونے والے بل پر قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی نے دستخط کردیے، لیکن پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست محمود اختر نقوی نے درخواست دائر کردی تاہم سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست خارج کردی۔

اجنبی کا کہنا ہے کہ اکتوبر شروع ہوتے ہی موسم سرد ہونا شروع ہوگیا ہے مگر ساتھ ساتھ گرمائش بھی محسوس ہورہی ہے، 26 ترمیم میں کئی آئینی و قانونی سقم موجود ہیں اور ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے میں کئی قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ ایک طرف سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت لائیو اسٹریم پر شروع کردی ہے جو 26 ویں آئینی ترمیم عدالتی اختیارات اور مدتِ ملازمت میں تبدیلی سے متعلق ہے اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کوشش کے باوجود سابق وزیر اعظم عمران خان سے وزیر اعلی خیبر پختوخواہ علی امین گنڈا پور کو استعفی سے نہ بچا سکی اور گنڈاپور کو ہٹانے کا مقصد ایک ایسے شخص کو آگے لانا تھا جو گنڈاپور کی طرح فوج کا ‘وفادار’ نہ ہو، بلکہ ایسا نوجوان ہو جو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے سخت گیر پالیسی رکھتا ہو تاکہ اڈیالہ جیل سے عمران خان کی رہائی ممکن ہو۔عمران خان نے نئے وزیر اعلی کے پی کے کا اعلان کردیا جو اسٹیبلشمنٹ کیلئے پیغام ہے کہ تیار ہوجائو لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے عمران خان اور نئے نواجوان وزیر اعلی کیلئے کئی مشکلات پیدا کردی ہیں۔

اجنبی کے مطابق اسی دوران آصف زرداری دوبئی سے پاکستان آنے پر مجبور ہوئے، راتوں رات محسن نقوی سمیت اسحاق ڈار اور ایاز صادق سے ملاقات کے دوران 26 آئینی ترمیم میں مدت ملازمت میں قانونی پیچیدگیوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے چیف کی ‘ایکسٹینشن’ جیسے آپشن پر غور و خوض کیا گیا۔

ایک جانب جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی تحریک لبیک ایک بار پھر روڈوں پر احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے اور دوسری جانب تحریک انصاف ایک بار خیبر پختونخواہ کے راستے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرتی نظر آرہی ہے کہ جبکہ متحدہ اپوزیشن جماعتیں بھی احتجاج پر غور کررہی ہیں۔

اجنبی کا بتانا ہے کہ ‘اندرونی طور پر بھی ہل جُل شروع ہوچکی ہے’ اور اکتوبر کے بجائے نومبر کا سرد موسم زیادہ گرم ہوتا نظر آرہا ہے۔ اصل بات وہ یہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر 2026 میں بھی آرمی چیف رہیں گے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں