گلستان جوہر’ کینٹ بورڈ فیصل کے سائے تلے تجاوزات کی منڈی، روزانہ لاکھوں کی رشوت، عوام کی سانسیں گروی رکھ دی گئیں

0
8

کراچی (رپورٹ: اشتیاق سرکی) شہر قائد کے دل، گلستان جوہر میں، جوہر چورنگی سے لے کر جوہر موڑ تک پھیلا ہوا منظر کسی کباڑ خانے یا جنگ زدہ علاقے کا گمان دیتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک منظم کرپشن، سرکاری سرپرستی اور مافیا کے ناپاک گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔

کینٹونمنٹ بورڈ فیصل کی حدود میں، جہاں قانون کا نفاذ سب سے ‘سخت’ تصور کیا جاتا ہے، وہاں آج قانون خود ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہے۔ اور سامنے کھڑا ہے تجاوزات کا بے لگام اژدھا۔

اگرچہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری لینڈز نے تمام کینٹ حدود میں تجاوزات پر زیرو ٹالرنس کی واضح ہدایات جاری کر رکھی ہیں، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ایک لرزہ خیز داستان سنا رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، ہر خوانچہ فروش سے یومیہ 500 روپے، اور بڑے ریسٹورنٹس سے روزانہ 5000 روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ یہ رقم نہ رسید پر، نہ ٹیکس میں بلکہ سیدھا ‘سسٹم’ کی جیب میں جارہے ہیں۔ یوں ایک ریسٹورنٹ سے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے کی کمائی، اوپر سے مفت کھانے کی لائف ٹائم سبسکرپشن ہے۔

بات صرف تجاوزات تک محدود نہیں رہی۔ ریڑھیوں اور ہوٹلوں نے اپنے گیس سلنڈرز، چولہے، انگیٹھیاں براہ راست فٹ پاتھ پر رکھ دی ہیں۔ کئی بار ان سے نکلنے والے شعلے معصوم راہگیروں کو جھلسا چکے ہیں، اور شدید دھواں گرد و نواح کے مکینوں کو سانس کی بیماریوں میں مبتلا کر چکا ہے۔

بزرگ، خواتین اور بچے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے صرف فاصلہ نہیں طے کرتے، بلکہ ہر قدم کے ساتھ اپنی جان کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ ایک طرف ریڑھیاں، دوسری طرف شعلے، بیچ میں عوام اور اوپر حکام خاموش تماشائی۔

عوام کا کہنا ہے کہ کیا کینٹ ایریا صرف اشرافیہ کے آرام اور کرپشن کی کمائی کے لیے مختص ہو چکا ہے؟ کیا عام آدمی کا سانس لینا، چلنا، جینا، مرنا سب کچھ رشوت کی پرچی سے مشروط ہو چکا ہے؟ کیا ریاست واقعی ماں ہے؟ یا ماں صرف مخصوص طبقے کے لیے ہے؟

عوام کا مطالبہ ہے کہ اعلیٰ فوجی و سول حکام فوری کارروائی کریں، ان اہلکاروں کو نشانِ عبرت بنائیں جو قومی وقار کو ٹھکانے لگا کر روزانہ لاکھوں کی دیہاڑی لگا رہے ہیں۔ بصورت دیگر، عوامی ردعمل وہ طوفان بن سکتا ہے جس میں یہ تجاوزاتی امپائر خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں