تحریر: رابیہ خان
آج کے معاشرے میں دیکھا جائے تو واقع ہی رسم اذاں رہ گئی ہے آج مساجد محض کاروبار بن گئی ہیں جہاں عالم دین خود کو نبیوں کا وارث ٹھہراتے اور ہیں بھی وارث آج وہی اسلام کے نام پر کاروبار کرتے نظر آتے ہیں جہاں مساجد سے، ممبروں سے توحید رسالت کی خوشبو آتی تھی وہی آج ممبروں، مساجد سے ریاکاری نظر آتی ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر کچھ یوں کہتا کہ
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی!۔
جی ہاں یہ شعر حقیقت کی دھائی دے رہا ہے واقع ہی رسم اذاں رہ گئی ہے اذان تو سنانی دیتی ہے مگر تاثیر ہمارے دلوں میں نہیں اترتی روح بلالی دور دور تک نظر نہیں آتی آج ہم خود کو مسلمان تو کہتے ہیں لیکن ہماری مسلمانی انسانیت کو شرمندہ کرتی ہے۔ ہم اسلام کے نام پر مٹ تو سکتے ہیں، جام شہادت نوش کر تو سکتے ہیں جبکہ روح بلالی کو اپنے اندر زندہ نہیں رکھ سکتے۔ آج اللہ اکبر کی صدائوں سے مسلمانوں کے دل کے قفل نہیں کھلتے۔ ہمارے پاس لفظوں کی جاگیر تو موجود ہوتی ہے مگر ان لفظوں میں خلوص و ایمان نظر نہیں آتا جسے دیکھ کر کوئی غیر مسلم بھی دائرہ اسلام میں آنے کی جستجو کرے۔ ہم اللہ سے دعائیں تو بہت مانگتے ہیں لیکن بجائے ان دعاؤں کا مدعا کرنے کے ہم رب سے شکوہ و شکایت کرنے لگتے ہیں۔ دعا تو مانگتے ہیں پر نا امیدی کا دامن بھی تھامے رکھتے ہیں۔
آج ہم کہتے ہیں مسلمان پر بھاری ہے یہ وقت کیوں بھاری ہے کیوں مشکل وقت ہے؟ کیوں آئے روز زلزلوں میں تیزی کا رجحان ہے جنہیں ہم سائنس کا نام دے کر رب العزت کو بھول بیٹھے ہیں یہ سائنس نہیں رب کا عذاب ہوتا ہے جب اسے ہر جگہ نافرمانی نظر آنے لگتی ہےتو وہ اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ چھوٹا سا کام بھی ہماری مرضی کے مطابق نہ ہو تو انتہائی غصے میں آبر ہو جاتے ہیں تو وہ تو رب ہے تمام جہانوں کا مالک تو اسے غصہ نہیں آنا چاہیے کہ اس کے بندے کن کن حدود سے گزر رہے ہیں سوچا ہے کبھی؟ مسلمان کو کبھی شکست کھاتے نہیں دیکھا کیوں کہ وہ اللہ کا خاص بندہ ہے لیکن آج تمام امت مسلمہ کہیں نہ کہیں زوال کا شکار ہے۔ کبھی غور کیا کہ رب العالمین نے اپنے بندوں سے منہ کیوں پھیرا ہے۔ کیوں کہ ہم نے اللہ سے منہ پھیر لیا ہے۔ اور فرقوں و روایات میں دھنس کر راہ گئے ہیں ایک اپنا فرقہ بیان کرتا ہے تو دوسرا اپنا فرقہ بیاں کرتا نظر آتا ہے جبکہ اسلام کو، دین کو بیاں کرنا بھول چکے ہیں۔ بھول چکے ہیں کہ ہم محض ایک ہی خدا کے بندے اور ایک ہی نبی کی امت ہیں۔ ہم بطور مسلمان ملاوٹ اور ملاوٹ کرنے والے کو برا کہتے ہیں مگر خود کھلے عام کرتے ہیں اور نام کمیشن رکھ دیا جاتا ہے، رشوت دینے اور لینے پر تو سخت تلقین کرتے ہیں مگر کھلے عام خود ڈنکے کی چوٹ پر رشوت کی وصولی کرتے ہیں۔ یعنی دوسروں کے لئے بیانات تو رہ گئے مگر افسوس خود کے لئے عمل نہ رہا۔ آج قرآن پڑھنے والے تو ہیں، لیکن قرآن سینے سے لگانے والے نہ رہے۔ آج ہماری تلواریں بگل کر تاریں بن گئی جس سے حق و آزادی کی جنگ لڑی جا سکتی۔ ہم اپنی خودی بھول چکے ہیں۔ آج بھی انگریزوں کی غلامی ہمارے دماغوں میں بسی ہے۔ جسمانی طور پر تو آزادی مل گئی، رہائی مل گئی مگر دماغی طور پر وہی غلامی برقرار۔ ہم جہاد کی صداقت تو ضرور لگاتے ہیں اور عملی اصولوں کو بھول بیٹھے ہیں۔ مسلئہ کشمیر کیوں حل نہ ہوسکا آج تک ؟ کب تک غلامی تلے لوگ خود کو بسر کر دینگے؟ کوئی نہیں جانتا۔
جنگ بندی کا سبق دینے والے خود مسلمان ممالک کے دشمن بنے ہیں ہر جنگ کرنے کے باوجود بھی یورپی ممالک کامیاب ترین ممالک ہیں ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ اور مسلمان ممالک کو جنگ کرنے سے جہاد کرنے سے روکتے ہیں کہ اسلام تو صلح رحمی کا درس دیتا ہے۔ اگر اسلام میں جنگ کرنا غلط تھا تو ہمارے نبیوں نے کیوں جنگیں کی؟ کیوں اسلام کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ آج تمام مسلم ممالک پر یورپین ممالک مثلت ہیں افغانستان، برما، شام، جموں و کشمیر، فلسطین اور دیگر ملک و ریاستیں مشکلات سے دو چار ہیں۔ غزا کا معاملہ سب کے سامنے ہے پر یہ معاملہ اوجھل ہے سب سے ، سب مسلمان ممالک سوئے ہوئے ہیں اور انگریزوں کی پیروی کر رہے ہیں کیا انہیں دکھائی نہیں دے رہا کہ انگریز کیا کھیل رہا ہے؟ سوچنے کی بات ہے اگر یہی روئی کو مسلمان ملک کرتا تو کیا یورپی خاموش بنے تماشا دیکھتے؟ تمام اسلامی و سیاسی رہنماؤں پر زور دیا جاتا ہے کہ تنازعات و جنگوں کا خاتمہ کیا جائے جبکہ اس بات کی تلقین کرنے والے خود اپنے ملکوں سے اصلاحات کی فراہمی کرتے ہیں۔ اور ہم نے متعدل کا نعرہ لگا کر جہاد لفظ کو تدریسی نصاب سے ہی باہر کر دیا ہے۔
انگریزوں کی کٹھ پتلیاں بنے ہر جائز و ناجائز معاملات پر ہاں میں ہاں ملانے کے عادی بن چکے ہیں کیا نہیں معلوم وہ ہمارے کھلے دشمن ہیں۔
آج واقع ہی صداؤں سے مسلمانوں کے دل کے کفل نہیں کھلتے اگر ایسا ہوتا تو عافیہ صدیقی اپنا فرض سر انجام دینے کی سزا میں امریکی جیل میں نہ ہوتیں، اگر ایسا ہوتا تو سر اٹھا کر جینے والے صدام حسین کو کھلے عام پھانسی نہ دی جاتی، اگر ایسا ہوتا تو احمد خواجہ کو گھروں سے نہ اٹھایا جاتا۔ ہم دین کے دشمنوں سے مل کر اپنے ہی محمدوں کو مار رہے ہیں آج ہمارے ہی بمبو کی زد میں ہماری ہی مسجدیں تبا ہورہی ہیں، ہماری ہی گولیوں سے ہمارے ہی فوجی جوان شہید ہو رہے ہیں اور ہم سب کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی سکوں سے ہیں۔ مسلمان کیوں زوال کا شکار ہیں، کیوں جمو و کشمیر سے آج تک کوئی محمد بن قاسم نہیں ابھرا کیوں غزا اب تک اسرائیلیوں کی زد میں ہے مانا کہ مسلم تعداد کم ہے مگر جنگ بدر کے مقام پر بھی تو313 مسلمانوں نے 999 کے کفار لشکر کا سامنا بھی کیا اور دشمنوں کو شکست بھی دی۔ آج اگر کوئی دشمن ہمارے ملک میں آکر ایمل کانسی کو بھی اٹھا لے جائے تو راستہ نہیں روکا جاتا۔
خودی جھل چکی، سوچ مر چکی کہ آج رسم اذاں رہ گئی روح بلالی نہ رہی۔