تحریر: رابعہ خان
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے معروف شاعر، مصنف قانون دان، سیاست دان اور تحریک پاکستان کی ایک اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ جو کہ 9 نومبر 1877 میں برطانوی ہندوستان پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ 21 اپریل 1938 کو ان کی وفات ہوئی۔ علامہ اقبال کی اردو اور فارسی میں شاعری کرنا ہی ان کی شہرت کی بنیادی وجہ بنی۔ ان کی شاعری کا رجحان تقریباً امت اسلام کی طرف تھا۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق پر بولتے تھے، آواز بلند کرتے تھے۔ انہوں نے نظریاتی پاکستان کا خواب دیکھا جس وجہ سے انہیں پاکستان کا نظریاتی باپ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بظاہر اپنی آنکھوں سے تو علیحدہ ریاست پاکستان کو وجود میں آتے نہیں دیکھا مگر علامہ محمد اقبال کو پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی فلسفیانہ تحریروں اور شاعری کے ذریعے سے مسلمانوں کو بیدار کیا اور آزادی کی راہ کے لئے مسلمانوں کے دلوں میں غلامی سے آزادی کی جانب شمع روشن کی۔ جیسا کہ علامہ اقبال کی شاعری کا رجحان زیادہ تر امت مسلمہ کی جانب تھا انہوں نے ‘دار یکنسٹر کشن آف ریلجس تھاٹ ان اسلام’ کے نام سے انگلش میں ایک بک بھی تحریر کی۔ انہوں نے بچوں کے لئے بہت سی نظمیں لکھیں، نثر نگاری کی اور بچوں کو مستقبل کے لئے بیدار کیا۔ انہوں نے اپنی فلسفیانہ تحریروں کے ذریعے، شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں بیداری کی روح پھونکی جذبہ پیدا کیا اور فکری بلندی پر زور دیا۔
ان کے کچھ اشعار میں کہنا چاہونگی جو انہوں نے بچوں کے لئے لکھے اور نوجوانوں میں جذبہ بیدار کرنا چاہا۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے،
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے!
ایک اور شعر ہے
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا،
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں!۔
اور ایسی بے شمار شاعری لکھی جس سے نوجوانوں کے اندر جذبہ پیدا ہوا ان کے حوصلے بلند ہوئے۔
علامہ محمد اقبال کو جدید دور کا صوفی شاعر بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مقبول ترین شاعری جو کوئی بھی پڑھے دل میں اتر جاتی ہے۔ علامہ اقبال بحیثیت سیاست دان بھی تشکیل پاکستان میں اپنا نمایاں کردار ادا کرتے رہے انہوں نے 1930 میں آلہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت پیش کی اور یہیں نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ جس طرح قائد اعظم کی خواہش تھی کہ برصغیر کے مسلمان بھی ایک قوت بن کر ابھریں اور علامہ محمد اقبال نے اس تصور کو آگے بڑھایا اور آلہ آباد کے خطبے میں تصور پیش کیا۔ 1933میں اسی تصور کو چودھری رحمت علی نے پاکستان کا نام دیا۔
اگر علامہ محمد اقبال کی بنیادی زندگی پر اک نظر ڈالیں تو علامہ اقبال بچپن سے ہی ذہین شخص تھے اور ان کی یہ ذہانت معروف عالم مولانا سید میر حسن نے محسوس کی۔ علامہ اقبال کی تعلیم کا زمرہ ان کے والد شیخ نور محمد اور سید میر حسن لیا تھا۔ انہوں نے 1893 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور دو برس بعد 1895 میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر لیا۔ بعد میں انہوں نے اپنی تعلیم کو مزید جاری رکھنا چاہا اور اعلی تعلیم کے لیے لاہور آگئے اور ایک گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہائش پزیر ہوئے اور اپنی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا جہاں انہوں نے (بی اے) کے لئے عربی، فلسفی اور انگریزی کو اپنے مضامین کے طور پر منتخب کیا۔ 1898 میں بی اے کا امتحان کامیابی سے پاس کیا اور 1899 میں ایم اے کا امتحان دیا اور اپنی علمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
1900 سے 1903 تک اورینٹل کالج میں بطور لیکچرار مقرر رہے۔ اور پھر بعد میں انہوں نے مختصر وقفہ لیتے ہوئے گورنمنٹ کالج میں انگریزی کی تعلیم حاصل کرنا چاہی اسی طرح سے وہ مزید ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور اپنی ذمیداریوں کو پرجوش طریقے سے سر انجام دیتے رہے۔ ان کی سب سے زیادہ مشہور چار کتابیں۔ بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز شامل ہیں۔ علامہ اقبال شاعر مشرق کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کی تعریف میں جتنا لکھا جائے جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ وہ کسی تعریف کے محتاج نہیں۔ ان کے اپنی زندگی میں کئے گئے کارنامے ناقابل فراموش و قابل ذکر ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی تمام تر زندگی اسلام کی شان کا مشعل راہ بننے کے لیے وقف کر دی۔