کراچی: عالمی مشہور چینل (نیٹ فلکس) پر ماضی میں ہوئے تین مشہور فراڈوں جس میں عوام اور بینکوں سے کئی سو ارب روپے کا فراڈ کیا گیا اور جو ان فراڈوں کے ماسٹر مائنڈ تھے ان پر تیار گئی کی گئی تین ڈاکومنٹریز بے انتہا مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور چینل پر ٹاپ ٹرینڈ ہے۔ ان کو اب تک دنیا بھر میں 5 کروڑ سے زائد افراد نے دیکھا اور پسند کیا ہے۔
مزکورہ تین اقساط پر مشتمل اس سیریز کا نام ‘بیڈ بوائز بیلینئر انڈیا’ ہے۔ تینوں افراد میں ایک چیز مشترک رہی کہ جب ان کے پاس بے حساب فراڈ کا پیسہ آگیا تو ان کے تعلقات نامور بھارتی اداکاروں، کرکٹرز اور سیلیبریٹیز کے ساتھ رہے۔ اسی طرز کے دو فراڈ پاکستان میں بھی رونما ہوئے۔ سب سے پہلا فراڈ وجے مالیہ نامی شخص نے کیا جس کا باپ الکوحل کے بزنس سے وابستہ تھا اور اس کے مرنے کے بعد وجے نے بزنس سنبھالا اور کنگ فشر نامی ایمپائر قائم کی اور اسی نام سے اپنی ایک ایئر لائن بھی قائم کی۔ اپنے بزنس کے نقصانات کو چھپاتا رہا اور 17 بینکوں سے قرضوں پہ قرضے لیتا رہا اور اخر کار دیوالیہ ہو گیا اور لندن فرار ہوگیا۔ بھارت نے اس کو لندن سے بےدخل کر کے انڈیا لانے کی کوششیں کیی مگر وہاں کی عدالت نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اس کو بھارتی عدالت نے بھگوڑا قرار دیافق۔ اس پر 9 ہزار کروڑ روپے کے فراڈ کا الزام رہا۔
دوسرا فراڈ سونے کی جیولری اور ہیروں کی فروخت کرنے والی کمپنی نیریو مودی جیولری برانڈ کے مالک نیریو مودی کا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے ناصرف بھارت کے کئی شہروں میں بلکہ لندن اور امریکہ میں بھی اپنے شورومز قائم کیے اور وہاں سے جعلی ہیرے فروخت کیے جاتے تھے۔ وہ بھی بینک افسران کی ملی بھگت سے بے انتہا قرضے منظور کراتا رہا۔ اس کے خلاف جب اداروں نے تحقیقات شروع کی تو وہ ملک سے فرار ہو گیا اور بینکوں کا کئی ہزار ارب کا قرضہ ڈوب گیا۔ فرار ہونے کے بعد اخری دفعہ وہ امریکہ میں دیکھا گیا۔ بعد میں جب وہ لندن پہنچا تو اس کے خلاف بھارت نے وہاں بے دخلی کا کیس دائر کیا لیکن 2022 میں وہاں کی سپریم کورٹ نے اس کی دائر کردی بے دخلی کی درخواست پر فیصلہ دیا کہ وہ بھارت جا کر عدالتی کاروائی کا حصہ بنے، نے سب سے دلچسپ کہانی سہارا گروپ کے مالک سبراتا راؤ سہارنشی کی ہے جس پر 20 ہزار کڑوڑ کے فراڈ کا الزام ریا۔ اس نے اپنے کیریئر کا اغاز لمبرےٹا اسکوٹر سے کیا۔ اس نے اپنے شکار مالدار لوگوں کو نہیں بلکہ انتہائی غریب لوگوں کو منتخب کیا۔ شروعات میں اس نے کسانوں، کم امدنی والے ملازمین اور نچلے طبقے کو ٹارگٹ کیا۔ شروع میں وہ 10 روپے کا ٹوکن بیچتا تھا اور اس پر تین ماہ بعد ڈبل منافع بھی دیتا تھا۔ اس کی یہ اسکیم اتنی کامیاب ہوئی کہ اس نے پورے بھارت میں لاکھوں ایجنٹوں کو کمیشن پر نوکری پر رکھ لیا۔ اس کو دنیا کی سب سے بڑی فیملی کا خطاب دیا گیا اور اس نے بھارت کے قومی دن پر اپنے سوا لاکھ ایجنٹوں کے ساتھ قومی ترانہ گا کر گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروایا۔ وہ کئی برس تک ‘اس کی ٹوپی اس کے سر’ کے مترادف منافع دیتا رہا مگر پھر آہستہ آہستہ منافع کی آدائیگیوں میں مشکلات آنے لگیں تو پھر مالیاتی اداروں سے قرضے لینے شروع کر دیے۔ ان پیسوں سے اس نے رئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری اور سیٹلائٹ ٹی وی بھی قائم کیا لیکن حالات دن بدن خراب ہوتے گئے۔ اس نے اپنے ایجنٹوں کو یہ ہدایت دی کہ ساڑھے تین کروڑ سے زائد انویسٹرز کے پیسے منافع دینے کے بجائے مزید برسوں کے لیے ری انویسٹ کر دیے جائیں۔ عوام کی بے چینی اور میڈیا کی خبروں کے بعد تحقیقات اداروں نے کام شروع کر دیا۔ اس نے ایک تحقیقاتی ادارے کو الجھانے اور اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے 170 ٹرکوں پر کئی ہزار بکسوں میں کاغذات بھجوائے مگر آخر کار ایک دن تمام دفاتر بند کر دیے گئے اور کروڑوں لوگوں اور مالیاتی اداروں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ وہ گرفتار ہوا، پیرول پر رہا ہوا اور اس کے خلاف آج بھی مقدمات زیر التوا ہیں۔ پاکستان میں بھی اس اسکیم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دو فراڈ اسکیمیں متعارف کروائی گئی جن میں صمد دادا بھائی اور ڈبل شاہ اس کی میں شامل تھی اور ان میں بھی عوام کے اربوں روپے ڈوب گئے لیکن یہاں فائدہ تحقیقاتی ایجنسیوں کو ہوا۔