کراچی کے ادبی سگنلزپر ادبی گدا گروں کی بھر مار

0
13

ادب برداشتہ: مقبول زیدی 
 

پچھلے دنوں ہم کراچی کی ایک ادب پرور شخصیت کے ساتھ تھے، اور ادب کے حوالے سے ان سے سیر حاصل گفتگو ہو رہی تھی کہ ان کے فون کی گھنٹی نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کردیا لیکن انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی، گھنٹی کئی بار بجی لیکن موصوف نے بات کرنے سے نہ صرف احتراض کیا بلکہ ان کے ماتھے پر نا خوش گواری کی شکنیں بھی نمایاں ہوگئیں، ہمارے استفسار پر بس اتنا کہا کہ ہے ایک ‘ادب کا گدا گر’ جو دن رات تنگ کرتا ہے تو ہم نے بھی ہنس کر گراہ لگا دی ‘کہ جہاں آپ جیسی شخصیت ادب پروری کے حوالے ادبی سگنل کا کردار ادا کرے گی تو وہاں بے چارے اس جیسے ادبی گدا گر بھی یلغار کریں گے’، جس پر انہوں نے ایک بلند آہنگ قہقہ لگایا اور دیر تک ہنستے رہے پھر اس کے بعد کافی وقت اس موضوع پر گفتگو رہی، اور ہم ان کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر آ تو گئے لیکن ذہن اسی موضوع میں الجھا رہا، احباب کے علم میں ہوگا کہ رمضان سے قبل معروف شاعر محترم فرحت عباس شاہ کچھ ادبی مصروفیات کے تحت کراچی تشریف لائے تھے تو ثقافتی اور ادبی تنظیم ‘شہ نشین’ نے ان کے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا تھا جس میں شعری نشست سے قبل جو گفتگو کا موضوع دیا گیا تھا وہ ‘کارپوریٹ مشاعروں’ کی نسبت سے تھا جس پر یوں تو ماضی میں بھی گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن اس گفتگو کے دوران ایک خطرناک صورت حال سامنے آئی کہ ماضی میں ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے اپنے نظریات یا اپنا بیانیہ ترقی پذیر ممالک میں پھیلانے کے لئے ایک بڑا فنڈ مختص کیا جاتا تھا اور اس سے ان ممالک کے قلم کاروں کی خدمات خرید لی جاتی تھیں، لیکن اس دور میں حکمت عملی کچھ یوں تبدیل ہوئی کہ کہ اب دیانت دار اور حقیقی شعرا کرام اور ادبا کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ ان ‘ادبی گدا گروں’ کو دی جا رہی ہے، بالکل اسی طرح کہ جیسے ٹریفک سگنلوں پر انتظامیہ اں کی مافیا گدا گروں کو ‘ایڈجسٹ’ کرتی ہے۔

اس ضمن میں مزید رونے کا مقام یہ ہے کہ اب اس کاروبار میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ایک خاتون تو کمال کی منصوبہ بندی کرتی ہیں کہ وہ اپنی شعری نشست کا  اعلان مسند نشینوں کے ناموں کے اعلان کے ساتھ کرتی ہیں اور شعری نشست ہونے تک مسند نشینوں میں ان کی رد و بدل جاری رہتی ہے یعنی وہ ‘خوب سے خوب تر کی تلاش پر یقین رکھتی ہیں’۔

اس کاروبار میں کمرشل بنیادوں پر ‘استاد شاگردی’ کے علاوہ تحریری سپورٹ، کتاب کی چھپائی، کتاب کی رونمائی، شعری نشستوں میں شاعر کے مقام کی بہتر درجہ بندی اور ادبی القابات وغیرہ وغیرہ   تک کے ریٹ لگے ہوئے ہیں۔ سو اس تحریر کے زریعے سے شعر و ادب کے حقیقی وارثوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا تھوڑا سا وقت ادب کے لئے ضرور نکالیں اور خاص طور پر ہماری ادب پرور شخصیات کی رہ نمائی کے لئے کیوں کہ ادب پرور ہیں تو ادب ہے اور یقینا آپ کے تھوڑا سا وقت نکال لینے سے جہاں ادب پرور شخصیات کی محنت اور اثاثہ ضائع ہونے سے محفوظ رہے گا، وہاں کراچی میں ادب کی ترقی اور ترویج کے راستے کشادہ ہوجائیں گے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں