تجزیہ: سمیر قریشی
بدھ کے روز کراچی پولیس آفس میں ایک اور نئی فورس “شاہین فورس” کا افتتاح ہوا، یہ فورس ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید اوڈھو نے بنائی ہے، انہوں نے اس موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورس 300 جوانوں پر مشتمل ہے، یہ فورس جدید اسلحہ سے لیس ہوگی ان کو ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹس فراہم کی جائیں گی۔ یہ شاہین فورس شہر کے حساس مقامات پر تعینات ہوگی، اس وقت کراچی کی صورتحال یہ ہے کہ یکم ستمبر سے اب تک ایک ہفتہ میں مسلح ڈاکو شہریوں کی جان ومال دونوں سے کھیل گئے، ڈکیتی مزاحمت پر 10 شہری اپنی جان سے گئے جبکہ سینکڑوں ڈکیتی کی وارداتیں علیحدہ ہیں لیکن ایڈیشنل آئی جی کراچی کہتے ہیں کہ پولیس بلا تفریق کام کررہی ہے۔ “شاہین فورس”اسٹریٹ کرائم پر قابو کرنے کے لیے بنائی گئی ہے، ماضی میں اس طرح کی فورسز اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے کی لیے کئی فورسز بنیں ان میں مجاہد فورس تھی جوکہ ہر تھانے کو چار موٹر سائیکلیں اور جوان دیے گئے تھے لیکن وہ بھی ناکام رہی، اس کے بعد سابق ایس ایس پی اظفر مہیسر جوکہ آج کل ڈی آئی جی کوئٹہ ہیں جب وہ ایس ایس پی ایسٹ تھے تو انہوں نے اینٹی اسٹریٹ کرائم فورس شروع کی تھی اس کے بعد ساجد سدوزئی کے دور میں بھی یہ اینٹی اسٹریٹ کرائم فورس قائم رہی اس کا دفتر جمشید کوارٹرز تھانے میں قائم تھا لیکن یہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکی۔
اس کے بعد مجاہد فورس اور فیروز آباد سمیت جمشید ٹاﺅن میں سابق ایس پی جمشید ڈاکٹر رضوان نے بھی موٹر سائیکل سواروں پر مشتمل فورس بنائی، اس کے لیے فیروز آباد تھانے میں مانیٹرنگ روم بنایا گیا، کیمرے لگائے گئے، ایل سی ڈیز لگائی گئیں، موٹر سائیکلوں میں ٹریکر لگائے گئے کہ ان کی لوکیشن کا پتہ رہے لیکن ان کے جانے کے بعد سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا، جس وقت موٹر وے پولیس قائم کی گئی تھی تو اس کا آغاز نئی تربیت سے کیا گیا تھا۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیاتھا اور اس میں تبادلہ ہوکر جانے والوں کو اپ گریڈ کیا جاتا تھا۔ جیسے اے ایس آئی کو سب انسپکٹر اور انسپکٹر کو ڈی ایس پی کے عہدوں پر رکھا جاتا تھا۔
لاہور میں ڈولفن فورس کی بات کی جائے تو ان کی تربیت بھی علیحدہ ہوئی اور آج لاہور کا حال دیکھا جائے تو اسٹریٹ کرائم میں قدرے کمی نظر آئے گی، کراچی میں ایک سٹی وارڈن کے نام پر فورس قائم کی گئی مگر اس کی کوئی تربیت نظر نہ آئی اور یہاں تک کہ آج وہ تقریبا نظر ہی نہیں آرہی، اب وقت چلیں دیکھا جائے تو ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید اوڈھو بہت اچھا کام کررہے ہیں لیکن نیچے نظر دوڑائی جائے تو عجیب صورتحال ہی نظر آرہی ہے۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کو دیکھا جائے تو ان کا رخ علیحدہ ہے، ڈی آئی جیز اپنی سلطنت قائم کیے بیٹھے ہیں اور ایس ایس پیز نے علیحدہ اپنی حکومت قائم کی ہوئی ہے، ایک ایس ایچ او کی تعیناتی کے احکامات جب جاری ہوتے ہیں تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں سے مل لیے ہو؟ وہ بھی سوچتا ہے کہ میں پرائیویٹ آدمی سے کیوں ملوں؟لیکن سسٹم کا حصہ ہے۔
شاہین فورس کا قیام ایڈیشنل آئی جی نے کردیا ہے مگر میری زاتی رائے میں اس کا کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا، ماضی میں قائم اسی قسم کی فورسز اپنے اہداف حاصل کرنے کے بجائے اپنے مقاصد پورے کرنے میں لگی رہیں اور مال بناتی رہیں۔ “شاہین فورس” کے لیے بھی کوئی نئی تربیت نہیں، وہی سوچ اور وہی طریقہ ہے، کوئی نیا افسر نہیں ان کے لیے، وہی ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز ان کو دیکھیں گے جو اس وقت کرائم کنٹرول کرنے میں ناکامی کا شکار ہیں۔ اس سے اچھا تو یہ ہوتا کہ مقامی پولیس کو مضبوط کیا جاتا اور تھانوں کو اضافی نفری فراہم کی جاتی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ایڈیشنل آئی جی جاوید اوڈھو اس فورس پر خود چیک اینڈ بیلنس رکھیں ورنہ یہ بھی ماضی کی طرح مال بنانے میں مصروف ہوجائے گی، پھر یہی لگے گا کہ “شاہین فورس”بنا کر پولیس نے ایک نیا رنگ دیا ہے۔ شہریوں کو ایک اور “لالی پاپ “دیا گیا ہے اور کل شہری ہی کہتے نظر آئیں گے کہ پرانی بوتل میں نئی شراب دے دی گئی ہے۔