کیا بار بار آئی جی تبدیل کرنے سے” تبدیلی” آجائے گی؟۔

0
94

تحریر: احسان شوکت

تحریک انصاف کے تین سالہ دورے حکومت میں ساتویں آئی جی پنجاب اپنے عہدے پر براجمان ہو چکے ہیں۔ انصافی حکومت کی تجربہ گاہ میں اب تک “تبدیلی” کی بھینٹ چڑھنے والوں میں سابق آئی جی کلیم امام، محمد طاہر، امجد جاوید سلیمی، عارف نواز خان، شعیب دستگیر اور انعام غنی شامل ہیں جبکہ اب راؤ سردار علی خان پر آزمائش کی گھڑی آن پڑی ہے۔

باربار آئی جی بدلنے سےشاید حکمران کی”انا” کو تو تسکین ملی ہو، مگر محکمہ پولیس کا بطور ادارہ جبکہ آئی جی کے عہدے کا وقار ضرور گھٹ کررہ گیا ہے۔

حکومتی اقدامات سے سوا 2 لاکھ سے زائد پولیس فورس کے جوانوں کا نہ صرف مورال ڈاؤن ہورہا ہے بلکہ فورس میں بدلی پھیل بھی رہی ہے۔ اب تو افسران کی جانب سے بھی اس فیصلے پر کھل کر تعجب اور ناراضگی کا اظہارکیا جارہا ہے ۔

حکومت چند ماہ بعد ہی پنجاب میں آئی جی تبدیل کر کے پولیس آرڈر 2002 کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے، کیونکہ پولیس آرڈر کے مطابق آئی جی اور ضلعی پولیس افسران کی تعیناتی کے لیے 3 سال اور کم از کم مدت 2 سال رکھی گئی ہے۔ کسی بھی ڈسپلن فورس کے لیے ضروری ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں و تبادلے کیے جائیں، مگر یہاں ہمیں مذموم مقاصد اور خفیہ ایجنڈا نظر آتا ہے۔ کیا یہ منافقت کی حد نہیں ہے کہ سندھ میں پولیس افسران کا تبادلہ و تقرریاں کرتے وقت وفاقی حکومت کا رویہ مختلف ہوتا ہے، لیکن جس صوبے میں وفاقی اور صوبائی حکومت ایک ہو وہاں افسران کے تبادلے و تقرریوں کا معیار کچھ اور نظر آتا ہے۔

یاد رکھیں پولیس اصلاحات اور تھانہ کلچر کی تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت ہی ہے۔ کسی بھی ادارے کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے خود مختاری کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ جب تک پولیس افسران کو مستقل تعیناتی نہیں ملے گی اور انہیں با اختیار نہیں بنائیں گے، وہ کبھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ جب 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی توپنجاب پولیس میں اصلاحات کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے سابق آئی جی خیبر پختونخواہ ناصر خان درانی کو پولیس اصلاحات کمشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، مگر انہوں نے بھی حکومت کی محکمہ پولیس میں بیجا سیاسی مداخلت سے زچ ہو کر اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ حکومت کو سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بار بار آئی جی کو تبدیل کرنے سے صوبے میں پولیس کارکردگی بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کا بلندوبانگ نعروں کے باوجود پولیس وتھانہ کلچر کی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے اور ان حالات میں نہ ایسا ہوتا نظر آتا ہے۔ افسوسناک حقائق یہ ہیں کہ عمران خان نے پولیس اصلاحات کے حوالے سے جو دعوے کئے تھے، حکومت کی اپنی پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے وہ سب غلط ثابت رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں