تحریر: محسن ضیاء
سوشل میڈیا کا چسکا تو شروع سے ہی تھا، 2009 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغِ عامہ میں داخلہ لیا تو ساتھ ہی ماس کمیونیکیشن کراچی یونیورسٹی کے نام سے فیس بک پیج اور گروپ بھی بنا لیا، جہاں شعبے سے متعلق اطلاعات وغیرہ پوسٹ کی جاتی رہی۔ اس کے بعد اے آر وائی اور جیو نیوز میں جاب کے دوران بھی اس پیج اور گروپ کو جونئیرز نے سنبھالا۔ پھر کافی عرصے تک اسے چھوڑ دیا لیکن پیج اور گروپ پھلتا پھولتا رہا اور ہزاروں لائک اور ممبر ہر سال بڑھتے رہے۔ کچھ سال پہلے جب لوگوں کو سب ہرا ہرا ہی نظر آرہا تھا مجھے اس فیلڈ میں کچھ روشن مستقبل نظر نہیں آیا اور میں نے میڈیا چھوڑ کر اپنے کام کا آغاز کردیا۔ اس دوران کبھی کبھی اس گروپ اور پیج پر لوگوں کی رہنمائی بھی کرتا رہتا تھا۔ مجھ سے جب بھی کوئی اس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے سے متعلق سوال پوچھتا میں پوری قطعیت کے ساتھ اسے منع کردیتا کہ یہ غلطی مت کرنا۔ میری وجہ سے ہزاروں نہیں تو شاید سینکڑوں لوگوں نے اپنا مائینڈ ضرور تبدیل کیا ہوگا، ان میں سے کتنے ہی ایسے ہیں جو اب بھی دعائیں دیتے ہیں کہ میں نے ان کے زندگی کے قیمتی ترین سال بچا لئے۔ ایسا نہیں ہے کہ صحافت کی پڑھائی بالکل فضول ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نناوے فیصد لوگ اعلیٰ تعلیم بہتر نوکری کے حصول اور پیسا کمانے کے لئے کرتے ہیں اور بدقسمتی سے اس شعبے کا حال سب کے سامنے ہی ہے۔
میں نے 2015 میں جیو جس تنخواہ پر چھوڑا تھا آج بھی میرے ساتھ کے پرانے کولیگ اس سے صرف پانچ دس ہزار اوپر پر گزارا کررہے ہیں، کتنے صحافی بے روزگار گھوم رہے ہیں، کتنوں کو پانچ ،چھ ماہ کی تنخواہیں نہیں ملی۔۔۔ غرض یہ کہ ایسی لاتعداد داستانیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر میں سب نئے لوگوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ صحافت کے شعبے میں داخلہ نہ لیں۔ میرا یونیورسٹیز کے بارے میں بھی یہی خیال ہے کہ اگر آپ اس شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کرسکتے وہاں یہ ڈیپارٹمنٹ بند ہو جانے چاہیئں۔ اب جدید تقاضے کیا ہیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا حال تو سب کے سامنے ہی ہے، ساتھ ساتھ ڈیجیٹل جرنل ازم، یوٹیوب مانیٹائزیشن، بلاگنگ، وی لاگنگ وغیرہ کے سبجیکٹ بھی پڑھائے جائیں تاکہ اگر نوکری نہ بھی ملے تو چار سالہ ماس کمیونیکیشن کرکے عملی زندگی میں قدم رکھنے والا نوجوان چار پیسے کما سکے۔ ورنہ جیسا چل رہا ہے چلنے دیں اور لوگوں کی زندگیاں برباد کرتے رہیں۔ اور ایک اور اہم بات، جامعہ کراچی، جامعہ اردو، جامعہ پنجاب، اقرا یونیورسٹی، ایس ایم اور اس جیسی کئی یونیورسٹیز سے سالانہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی تعداد سینکڑوں یا شاید ہزاروں میں ہو لیکن اس کے مقابلے میں اس شعبے میں نئی نوکریاں کتنی نکلتی ہیں یہ تو شاید کوئی نہ بتا سکے لیکن ہر سال کتنے اداروں سے کتنے صحافی نکالے جاتے ہیں یہ سروے آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
میرا مقصد ماس کمیونیکیشن کے طلبہ و طالبات میں بددلی پھیلانا ہرگز نہیں۔ بس انتہائی مخلصانہ مشورہ ہے کہ اب بھی وقت ہے اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں، روایتی طریقوں سے ہٹ کر اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں کو نکھاریں، ڈیجیٹل سکلز پر بھی توجہ دیں تاکہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو آٹھ سے 10 ہزار روپے ماہانہ کی انٹرن شپ کے نام پر سال ڈیڑھ سال رگڑا نہ جائے اور اس کے بعد بھی نوکری کی کوئی گارنٹی نہ ہو۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، بلاگنگ، ایس سی او، وی لاگنگ، یوٹیوب، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ سمیت ایسی بہت سی سکلز ہیں جنہیں آپ پڑھائی کے ساتھ ساتھ سیکھ کر ایک اچھا مستقبل بنا سکتے ہیں۔