چوروں کے کپڑے اور ڈانگوں کے گز

0
383

تحریر: راحیلہ راجہ

یوں تو بدقسمتی سے منظم مافیاز نے ریاست کے تقریبا ہر ادارے کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی متعدد بار برملا زکر خیر کرچکے مگر لگتا ہے کہ مدینے کی ریاست میں بلیک میلنگ، زخیرہ اندوزی اور کرپشن نے غربت، جہالت، ناانصافی اور اقراباء پروری جیسی برائیوں کو کوسوں میل پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہاں اب جو جتنا کرپٹ اور اونچے شملے والا ہوگا اسے اتنی ہی  بڑی سیٹ سے نوازہ جائے گا، سیاسی عہدے اور وفاداریاں بھاڑ میں جائیں ملک میں حساس ترین ریاستی اداروں میں قومی مجرموں کی مبینہ تعیناتی ملک اور ریاست کے ساتھ نہ صرف بہت بڑا ظلم ہے بلکہ میرٹ کی پامالی اقراباء پروری، کرپشن کی جڑیں مضبوط کرنے اور مافیاز کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔

 اس ملک کا المیہ دیکھیں کہ مورخہ 12 مارچ 2014 کو نیب کے سابق چیئرمین قمر زمان چوہدری نے خیبر پختون خواہ کے مشہور زمانہ غیر میعاری اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹ کیس خریداری کا ریفرنس بعنوان State vs Malik Naveed & others زیر دفعہ 18(c) فائل کیا یہ کیس آج بھی نوید احمد خان جج نیب کورٹ نمبر 4 پشاور کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ملک نوید سابق آئی جی کے پی کے، ڈاکٹر سلیمان خان سابق ڈی آئی جی  اور دیگر آٹھ کردار 2.8 ارب روپے کی جعلی بلٹ پروف جیکٹس اور اسحلہ خریداری میں ملوث پائے گئے۔ ڈاکٹر سلیمان خان کے علاوہ ملک نوید سمیت سارے ہی کردار مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور شاید کرتے رہیں مگر ان میں سے ایک ڈاکٹر سلیمان خان واحد ملزم ہے جو ملک کی سپریم سکیورٹی ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کے چیف کے طور پر  تبدیلی کے مزے لوٹ رہا ہے اس نے ایک نامور ادارہ کو مکمل طور پر ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں تبدیل کر دیا ہے۔ موصوف عرصہ دراز تک دماغی کینسر جیسی بیماری میں مبتلا رہا یہ ٹیکہ بھی آخرکار قومی خزانہ ہی کو لگا۔ ڈاکٹر سلیمان خان کی سربرائی میں محکمہ انٹیلی بیورو کے درجنوں حاضر سروس آفیسرز و ملازمین گلبرگ آئی بی ایمپلائز کواپریٹیو ہاوسنگ سوسائٹی کے برسوں سے کرتا دھرتا ہیں جن کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے نام پر درجنوں تعمیراتی کمپنیاں قائم ہیں اور یہ بیک وقت کئی معروف کمرشل پلازوں شاپنگ مالز اور بڑے بڑے بزنس سینٹرز کے مالک اور شیئر ہولڈرز ہیں۔ ان افراد میں پراپرٹی ٹائیکون اللہ رکھا ناصر، محمد ظہیر، مسعود جنجوعہ، سجاد حمید ستی اور کئی دوسرے قابل زکر ہیں۔

 صحافتی زرائع کا کہنا ہے کہ یہ وہ مافیا ہے جو اپنے خلاف ہونے والی کسی بھی قانونی کاروائی کو ٹھپنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے بعض زرائع کا کہنا ہے کہ یہ منظم مافیا ایف آئی اے اور نیب جیسے اداروں کو مینج manage کر لیتا ہے۔ اس مافیا سے ٹکر لینے والے کو ٹارگٹ کر دیا جاتا ہے مخالفین کی مکمل ریکی فون ریکارڈنگ جیسے گھنائونے اور مکروہ کھیل سے جہاں ادارے کی بدنامی ہو رہی ہے وہاں ریاست کا امیج بھی خرابی کی طرف گامزن ہے۔ تاریخی کرپشن کیس کے سرغنہ ڈاکٹر سلیمان خان کا ملک کی سپریم سکیورٹی ایجنسی کا چیف ہونا نہ صرف قوم بلکہ خود ریاست کیلیے لحمہ فکریہ ہے اور بجا طور پر ملک کیساتھ کھلواڑ ہے۔ کیا ڈاکٹر سلیمان کے علاوہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے پاس کوئی اور آفیسر نہیں جو ملک کی سپریم سکیورٹی ایجنسی چلا سکے کیا دماغ کے کینسر میں مبتلا رہنے والا ہی بہتر طور پر ایک حساس ادارے کا سربراہ ہو سکتا ہے، کیا شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ایک مستقل مریض کے علاوہ بھی کوئی انٹیلی جنس بیورو چلا سکتا ہے۔ جی ہاں ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں ماسوائے میرٹ اور قانون کی بالادستی کے۔ ایک مجرم کو حساس ادارے کا سربراہ مقرر کرنا ریاستی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے ایسے کون سے سروس رولز ہیں جن کے تحت کوئی ملزم کسی اہم ترین ریاستی ادادرے کا چیف بن جائے یقیناً یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ وطن عزیز پر خدانخواستہ منظم مافیا کا راج ہے اور ہر ادارے میں چند افراد نے گینگز بنا رکھی ہیں جو انتہائی خطرناک عمل ہے۔ اسی ادارے کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ جس ادارے کا کام ملکی سلامتی سے متعلق ہو اور وہ سیاسی، مذہبی اور مسلکی تقریبات کی کوریج تک محدود ہو چکا ہو تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہے۔ یاد رہے کہ نیو یارک میں پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کی نیلامی کی بولی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ انٹیلیجنس بیورو کی گلبرگ ہاوسنگ سوسائٹی کے پراپرٹی ٹائیکون اللہ رکھا ناصر کا داماد بھی شامل تھا۔ اگر اس ملک کو بچانا ہے تو دیر نہ کی جائے ملزموں کو حساس اداروں کے سربراہ نہیں جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ ملک کو مدینے کی ریاست بنانے کیلئے چوروں کے کپڑے اور ڈانگوں کے گز نہیں کوڑی کوڑی کا حساب اور اہل افراد کا چنائو اور بس۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں