تحریر: محمد ولید احمد
یقین تھا کہ تماشا لگے گا اور اشارے یہ تھے کہ کراچی اس گندے کھیل کا مرکز بنے گا۔ ہوا کیا ہے آئیں سمجھتے ہیں۔ کراچی کے ہر ضلع کا ایک ڈی آر او (آفس) ہوتا ہے جہاں سے ریٹرننگ آفیسر نتائج جاری کرتے ہیں۔ پولنگ کے بعد صحافیوں کو ڈی آر او (آفس) میں جانے کی اجازت ہوتی ہے، اس بار گنگا اُلٹی بہتی رہی، جن کے پاس الیکشن کمیشن کے ‘پاس’ نہ تھے وہ اندر تھے اور پاس والے عمارت کے آس پاس تھے۔ مثلاً ضلع وسطی کا ڈی آر او (آفس) کمپری ہینسیو اسکول نارتھ ناظم آباد تھا۔ کیوں کہ اندر جانے کی اجازت نہ تھی اس لئے میں پوری
رات اس عمارت کے ارد گرد گھومتا رہا۔ عمارت کے اندر رینجرز تعینات تھی، چاروں اطراف پولیس، خفیہ اہلکار اور فوج کے جوان پہرا دے رہے تھے، ایسے نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں پچھلے گیٹ سے داخل ہورہی تھیں جن کا مطلب سمجھنا مشکل نہ تھا، آرمی کے دستوں نے عمارت کو حصار میں تو لیا ہی تھا، ساتھ جو ‘بڑا آدمی’ آتا اسے آرمی کے دستے پروٹوکول میں پچھلے دروازے سے عمارت کے اندر لے جاتے۔ سیکیورٹی آنے جانے والوں سے پوچھ گچھ بھی کررہی تھی کیوں کہ ہمارے پاس الیکشن کمیشن کا جاری کردہ کارڈ تھے، اس لئے دیکھ کر چھوڑ دیا جاتا۔
ایک دوسری عمارت تھی جہاں پر صحافیوں کو جانے کی اجازت تھی یہاں الیکشن رزلٹ دکھانے کیلئے دو اسکرین لگائی گئی تھیں۔ پر وہاں صرف خالی کرسیاں تھیں، رینجرز اہلکار اور رزلٹ والی اسکرین پر پاکستانی جھنڈوں کے وال پیپر۔ پوری رات ایک نتیجہ بھی ان اسکرینوں پر نہ دیا گیا۔ آر اوز نے صحافیوں کے فون اٹھانا بند کردیئے تھے کیوں کہ وہ ڈی آر او (آفس) کے اندر سیکیورٹی کی ‘حفاظت’ میں نتائج مرتب کررہے تھے۔
صحافیوں کو الیکشن کمیشن نے جو کارڈ جاری کئے وہ تھے ہی اس لئے کہ ہم پولنگ اسٹیشن اور ڈی آراو (آفس) میں داخل ہوسکیں لیکن ڈنڈے کے آگے اصول ضابطے اور کارڈ نہیں چلتے۔ خیر اندر کیا ہوتا رہا اس کا علم خدا کو ہے، آر اوز کو اور ہمارے محافظوں کو۔
8فروری کو پانچ بجے پولنگ ختم ہوئی لیکن 10 فروری دوپہر 1 بجے تک بھی مکمل نتیجہ نہ آیا۔ فیلڈ رپورٹرز جو فارم 45 جمع کرتے رہے ان کے مطابق آزاد امیدوار کراچی میں سب سے آگے تھے دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی اور تیسرے نمبر پر متحدہ قومی موومنٹ لیکن جب نتائج آئے تو ایم کیو ایم کے جیتنے والے امیدوار حیران تھے، تحریک انصاف کے آزاد اور جماعت کے امیدوار پریشان اور بے بس۔۔ ۔
جس بندوق سے 2018 میں اس شہر کا مینڈیٹ اڑایا گیا اس سے بڑی توپ 2024 میں چلائی گئی ہے۔ صاحب اختیار نے جو کردیا ہے ڈر ہے کہیں مایوسی نفرت میں نہ بدل جائے، جب آپ صبح کی روشنی میں ڈالے گئے ووٹ رات کے اندھیرے میں تبدیل کریں گے، چالیس گھنٹے بعد بھی رزلٹ نہیں دیں گے، سیاسی انجینئرنگ کریں گے تو یوں عوام اور آپ کے درمیان مزید دوریاں بڑھیں گی۔
آخری بات یہ کہ کراچی کو تجربہ گاہ بنانا بند کریں۔ یہ شہر بڑا ہونے کی بہت بڑی قیمت پہلے ہی ادا کرچکا ہے مزید اس کے زخموں کو مت کریدیں، عوام پران لوگوں کو مسلط نہ کریں جن کا بازو آپ آسانی سے موڑ سکیں، یہی سوچ کر آپ نے 2018 میں مرضی کے کھلاڑی میدان میں اتارے تھے کیا کوئی فائدہ ہوا، اس بار بھی نہیں ہوگا۔ عوام کی رائے کا احترام کریں، نہیں کریں گے تو پھر سانحات آپریشنز اور مذمتوں کیلئے تیار رہیں۔