ادبی سروے: مقبول خان
لمحہ موجود میں دنیائے شعر و ادب کے افق پر ان دنوں کاغذی ادبی تنظیمیں چھائی ہوئی ہیں۔ یہ شعر و ادب کی خدمت کے بجائے ادبی فضا کو آلودہ کرہی ہیں۔ شاعروں کے بجائے متشاعروں اور متشاعرات کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے مشاعروں کا تقدس پامال ہورہا ہے۔ مشاعرے کی صدارت کا نیلام ہو رہا ہے۔ مہما ن خصوصی کی بولی لگ رہی ہے۔ نو دولتئے ادبی دنیا میں بھی اپنے مفادات سمیٹنے میں پیش پیش ہیں۔ اس پس منظر مںں گذشتہ دنوں فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ کے توسط سے ادب نواز دوستوں کی اس حوالے سے آراء یکجا کرکے اس رپورٹ کو مرتب کیا ہے جو نذر قارئین ہے۔
معروف شاعر و صحافی حنیف عابد کا کہنا ہے المیہ یہ بھی ہے کہ کاغذی ادبی تنظیمیں کثرت سے ہیں بلکہ یہ ادبی تنظیمیں ادبی منڈلی کا روپ دھار چکی ہیں۔ پاسبان قلم کے نام سے ادبی تنظیم کا کہنا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ آج سرکاری اور غیر سرکاری ادبی تنظیمیں تمام تر آندھی ہیں۔ معروف شاعر اور دو ادبی تنظیموں کے روح رواں مقبول زیدی وضاحت چاہتے تھے کہ بھائی کاغذی کی تھوڑی سی وضاحت بھی ضروری ہے، جس کے جواب میں شاعر سخن کہتے ہیں کہ بھائی مقبول زیدی، میرا خیال ہے کہ بھائی مقبول خان کی دانست میں “کاغذی ادبی تنظیمیں” وہ ہیں جو نام نہاد ہیں۔ جو فعال اور سر گرمِ عمل نہیں ہیں۔ جو ادبی محافل کے انعقاد میں اور شعرائے کرام اور صاحبانِ ذوقِ کو پلیٹ فارم تو مہیا نہیں کر رہیں مگر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا یا مقتدر حلقوں میں اپنے وجود کو قائم اور برقرار رکھنے میں بہت تیز ہیں۔
ایک دوست کا کہنا تھا کہ تنویر بھائی جو ادبی تنظیمیں غیر فعال ہیں اور ادبی پروگرام نہیں کر رہیں میری دانست میں کاغذی ادبی تنظیمیں ادب کے لیے اتنی نقصان دہ نہیں ہیں جتنی وہ تنظیمیں ہیں جو اپنے غیر ادبی مفاد کے لئے فعال ہیں اور ان کے پیچھے صاحب ثروت لوگ ہیں۔ ہمارے ایک دوست عامل عثمانی دریافت کرتے ہیں اصلی کی پہچان بتائیں جبکہ مرزا بیگ کہتے ہیں آج کل کی ادبی تنظیمں ادب کے ساتھ بے ادبی کر رہی ہیں۔