اسلام آباد: سپریم کورٹ میں عدالتی فیصلے کے تحت 17 ہزار سرکاری ملازمین کی برطرفی کیس میں سماعت کے موقع پر عدالت نے یمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ 17 ہزار ملازمین پر فیصلہ ختم نہیں کر سکتی۔
درخواستوں کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ سماعت کررہا تھا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اسی 5 رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مقننہ کسی عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی لیکن اس فیصلے کے اثرات دور کرسکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کسی فیصلے میں یہ کہہ دے کہ کسی فرد کو درست طور پر برطرف کیا گیا ہے تو حکومت اسے دوبارہ اسی ملازمت پر بحال نہیں کرسکتی۔ ملازمین کی برطرفی کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کے لیے عدالت سے دوسری مرتبہ رجوع نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ ہم یہ اسکیم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پارلیمان نے سرکاری ملازمین کی بحالی کا قانون کیوں بنایا ہے جبکہ برطرف ملازمین کا ہر کیس مختلف فورمز پر زیر بحث آچکا اور ان پر فیصلے بھی ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ 17 اگست کو اپنی ریٹائرمنٹ کے روز سابق جسٹس مشیر عالم نے پیپلز پارٹی کے دور کے برطرف ملازمین (بحالی) آرڈیننس ایکٹ 2010ء (سیرا) کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔
اس آرڈیننس کے تحت بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں اور ترقیاں بھی ملی تھیں۔ سپریم کورٹ سے جاری تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بنایا جانے والا ایکٹ 2010ء ایک خاص طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 2010ء ایکٹ کے ذریعے ریگولر ملازمین کی حق تلفی کی گئی لہٰذا برطرف ملازمین بحالی ایکٹ 2010ء کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔