کراچی (اکرم خان) کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرے میں مقررین کی تقاریر جاری تھیں، میں ایک کال سننے کے لئے بینر کے پیچھے سے نکل کر سامنے کھڑا ہوگیا، میرے بائیں ہاتھ پر پریس کلب کے گیٹ کے عین سامنے کچھ مظاہرین نعرے لگا رہے تھے، بینر دیکھا تو پی ایس او کے برطرف ملازمین تھے، ان کے پیچھے بھی ایک گروہ بہت جذباتی دکھائی دیا، اچانک ہی وہاں بھگدڑ اور ہل چل سی مچی، گھوم کر دیکھا تو ایک نوجوان تیزی سے اجتماع سے باہر نکلا اور میرے سامنے اس نے قمیص سے پانی کی بوتل نکالی جس میں پٹرول بھرا تھا اور خود پر انڈیلنا شروع کر دیا، میں اس کی طرف لپکا لیکن اس کے جو ساتھی اس کے پیچھے لپکے تھے، اس تک پہنچ کر اسے اپنی گرفت میں لے چکے تھے، انہوں نے اس کی خود سوزی کی کوشش ناکام بنائی، اسے محفوظ دیکھ کر میں نے موبائل سے اس کی تصاویر بنائیں۔
معلوم ہوا سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت سولہ ہزار ملازمین کی برطرفیوں کا وہ بھی ایک شکار ہے اور احتجاج کے دوران خود سوزی کی کوشش کی، ساتھیوں نے پانی سے اس کا سر اور منہ دھلایا لیکن اس کی طبیعت نہیں سنبھل سکی اور کچھ دیر بعد ایمبولینس کے ذریعے اسے ہسپتال منتقل کیا گیا، سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم وہ جج تھے جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری دن سولہ ہزار ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ کیا، اور اسلام آباد میں ان کے ایک نہیں دو نہیں تین پلاٹ نکلے ہیں، سالانہ اربوں کی مراعات لینے والوں کو چھوٹے چھوٹے سرکاری ملازمین کی چھوٹی چھوٹی تنخواہیں خسارہ دکھائی دیتی ہیں۔