کراچی یونین آف جرنلسٹس کا فواد چوہدری کو مناظرے کا چیلنج

0
84

کراچی: کراچی یونین آف جرنلسٹس نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کو مناظرے کا چیلنج دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ملک میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے سے متعلق اپنے دعووں کو اگر درست سمجھتے ہیں تو مناظرے کا چیلنج قبول کریں۔

 کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر نظام الدین صدیقی اور جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی سمیت مجلس عاملہ کے تمام اراکین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فواد چوہدری اپنے سابقہ دور میں بھی میڈیا سے متعلق حقائق کے برخلاف بیانات دیتے رہے ہیں اور دوبارہ وزارت ملنے کے بعد بھی ان کے غیرسنجیدہ بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ فواد چوہدری حکومت کے اس ایجنڈے پر کام کررہے ہیں جس کے تحت ملک میں اٹھنے والی ایسی تمام آوازوں کا گلا گھونٹنا ہے جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزیر نے اپنے حالیہ بیان میں رپورٹرز وداوٹ بارڈر کی رپورٹ پر جو ردعمل دیا ہے وہ ان کی پریشانی کا اظہار ہے کہ اب بیرون ملک بھی پاکستان میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔

 بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزیر پاکستان میں آزادی صحافت اور آزادی اظہا رائے کو ثابت کرنے کے لیے نیوز چینلز اور اخبارات کی تعداد گنوانا شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام چینلز اور اخبارات سابقہ حکومتوں کے ادوار سے کام کرتے اور شایع ہوتے چلے آرہے ہیں لیکن انہیں یا ملک میں عامل صحافیوں کو کبھی ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سے ہے۔ ملک میں صحافیوں کو مسلسل انتہائی جبر کے ماحول کا سامنا ہے کراچی سے اسلام آباد تک صحافیوں کے اغوا، ان پر دن دھاڑے حملوں اور پر تشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن ان کے ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہوسکے ہیں حالانکہ وفاقی وزیر قومی اسمبلی کے فلور پر دعووں سے بھری تقریر کرچکے ہیں لیکن انہوں نے مطیع اللہ جان، اور علی عمران کے اغوا کاروں، ابصار عالم اور اسد طور پر حملوں کے ملزمان کی گرفتاری کا کوئی ذکر نہیں کیا کیونکہ ایسا کوئی قدم موجودہ حکومت کی جانب سے اٹھایا ہی نہیں گیا جس کے نتیجے میں ملزمان کی گرفتاری عمل میں آتی۔

 بیان میں کہا گیا ہے وفاقی وزیر اب ایسے کسی بھی واقعے پر اٹھنے والی آوازوں کو بھی دبانا چاہتے ہیں اور ان کا یہ کہنا کہ صحافیوں پر حملوں پر پاکستان میں آنے والا ردعمل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔ وفاقی وزیر نے پاکستان کی سالمیت اور بقا پر یقین رکھنے والے صحافیوں اور ان کی تنظیموں پر یہ الزام بھی لگانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس عالمی ایجنڈے کا حصہ بن رہے ہیں جو پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے نکلنے نہیں دینا چاہتے۔

کے یو جے نے وفاقی وزیر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں عامل صحافیوں اور ان کی تنظیموں کو اپنی ناکامیوں سے جوڑنے کی کوشش نہ کریں۔ میڈیا کو آزاد کریں، اظہار رائے کی آزادی دیں اور اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر بنائیں تاکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالا جاسکے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزیر نے اپنے بیان میں پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے قانون کی کابینہ سے منظوری کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سے سوال ہے کہ پاکستان میں ایسے کسی مخصوص قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی وہ بیان دینے سے پہلے ذرا اس پر بھی غور کرلیتے تو بہتر ہوتا پاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے یہاں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کا مطالبہ کیا گیا لیکن وفاقی وزیر نے یہ نہیں بتایا کہ ایک ہی روز قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں بل پیش کیے جانے کے بعد سندھ اسمبلی سے قانون باوجود گورنر کے اعتراض کے دو بار منظور بھی ہوگیا لیکن قومی اسمبلی سے اس کی منظوری میں کون سی رکاوٹیں حائل ہیں؟۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے وفاقی وزیر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اصل کام پر توجہ دیں اور پاکستان میں عامل صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوششیں کریں۔ کے یو جے نے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ وزیراعطم کے ایک معاون خصوصی جو نیوز ون چینل کے مالک ہیں ان کے چینل میں صحافیوں اور دیگر میڈیا ورکرز کو 6 سے 9 ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں اور ان کے دو ملازمین دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن وفاقی وزیر فواد چوہدری یا وزیراعظم نے اس کا کبھی نوٹس نہیں لیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک طرف ملک کی مختلف بارز میں کروڑوں روپے کے چیکس تقسیم کیے جارہے ہیں اور دوسری طرف چینل مالکان کو کروڑوں روپے کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں حکومت اسے اپنا کارنامہ گردانتی ہے لیکن یہ رقوم جن مقاصد کے لیے لٹائی جارہی ہیں یہ بھی جاننا قوم کا حق ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیا مالکان کو 70 کروڑ روپے کی ادائیگی کا صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حکومت نے پی ایف یو جے کے مطالبے پر بظاہر یہ شرط عائد کی تھی کہ ملنے والی رقوم تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوگی لیکن تاحال ملک کے مختلف چینلز اور اخبارات میں کئی کئی ماہ کی تنخواہیں واجب الادا ہیں بیان میں وفاقی وزیر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اس اصل کام کی طرف بھی توجہ دیں تاکہ ان کی کارکردگی مثبت سمجھی جاسکے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں