اقتصادی ماہرین نے اس پر مختلف آراء دیں ہیں۔
اقتصادیات کے ماہرین مختلف آراء کے ساتھ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ آئی آیم ایف، ایف اے ٹی ایف اور دوسرے ساہوکار ادارے بہت ہی سرعت کے ساتھ پاکستان کے گرد غلامی کا حصار کھینچنے میں مصروف ہیں۔
قصاب مر کھنے بیل سے لڑنے کے بجائے چارہ اور پانی دکھاکر چمکارتے ہوئے اس کے پیر باندھ دیتا ہے۔ شکنجہ کس جانے کے بعد بیل کی ڈکار اور اشتعال ذبیحہ دیکھنے والوں کیلئے تفریح سے زیادہ کچھ نہیں۔
اسی انداز پر ‘جوہری’ پاکستان کا گلا گھونٹنے کیلئے اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور وزارت خزانہ کو آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 کے عنوان سے جو بل سامنے آرہا ہے۔ اس کے مطابق
اسٹیٹ بینک کے گورنر وزیرخزانہ کے مشورے سے تین نائب گورنروں کا تقرر کریں گے یعنی یہ تقرر ان دوافراد کی صوابدید پر ہوگا اور نائب گورنروں کی معزولی و برطرفی کے جملہ حقوق گورنر و وزیر خزانہ کے ہاتھ میں ہوں گے۔
اسٹیٹ بینک کے ملازمین صرف اور صرف گورنر کو جوابدہ ہوں گے۔
نیب، آیف آئی اے اور دوسرے تحقیقاتی ادارےاسٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنر اور سینئیر منیجرز کی تحقیقات نہیں کرسکیں گے اور یہ لوگ وفاقی حکومت کو جوابدہ نہیں ہوں گے۔
اسٹیٹ بینک کے اہلکاروں پر سرکاری ملازمین کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا اور گورنر اسٹیٹ بینک کو تمام قانونی کارروائیوں سے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔
ملک کی مالیاتی منصوبہ بندی، ٹیکس شرح، محصولات وغیرہ کا تعین گورنر اسٹیٹ اور وزیر خزانہ باہمی مشورے سے کریں گے۔
تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں کا تعین بھی اسٹیٹ بینک کے گورنر اور وزیر خزانہ کے فرائض منصبی میں شامل ہوگا۔
اے جی پی آر یا کوئی اور ادارہ اسٹیٹ بینک کے حسابات کا آڈٹ نہیں کرسکے گا۔ گورنر، وزیرخزانہ کے مشورے سے انٹرنل آڈیٹر کا تقرر کرے گا۔
اقتصادیات کے باب میں ہمیں اپنی کم مائیگی بلکہ بے مائیگی کا پورا احساس ہے لیکن مجوزہ مسودہ قانون کے مضمرات پر ممتاز ماہر معاشیات جناب قیصر بنگالی نے جو تبصرہ کیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ
اسٹیٹ بینک آرڈیننس منظور ہوا تو
ملک کے تمام وسائل اسٹیٹ بینک کے ہاتھ میں آجائیں گے۔
ریاست کے پاس تنخواہ دینے کے بھی پیسے نہیں ہوں گے، کیونکہ ترجیح قرضوں کی ادائیگی ہوگی۔
جب نئے قرض لے کر پرانے قرضوں کی ادائیگی ہوگی تو قرض کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔
دوسرے سرکاری ملازمین کے علاوہ ریاست کے پاس پولیس اور فوج کی تنخواہ دینے کو بھی پیسے نہیں ہوں گے۔
حکومت کی مالیاتی بے بسی سے ریاست اس حد تک مفلوج ہوسکتی ہے کہ خدا نخواستہ کہیں ملک ہی نہ ٹوٹ جائے۔
قیصر بنگالی نے کہا سلطنت عثمانیہ میں ایسا ہی ہوا تھا کہ قومی دولت کا کنٹرول مرکزی بینک کے پاس تھا اور جنگ کے دوران بینک نے حکومت کو لڑنے کیلئے پیسے دینے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی۔
کچھ اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور ڈاکٹر حفیظ پاشا بھی کررہے ہیں۔
مصر میں تعیناتی کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان جناب رضا باقر نے جس انداز میں رفاحی اداروں کا گلا گھونٹا اس نے غریب طبقہ کا جنازہ نکال دیا۔ موصوف نے بینکنگ کو سخت بناکر ان اداروں کو ملنے والے ایک ایک مصری پائونڈ کی تفصیل حاصل کرلی۔بپولیس کے چھاپوں سے بچنے کیلئے اہل دل نے نقد اور جنس کی شکل میں تعاون شروع کردیا تو اس کا دف مارنے کیلئے نئے قوانین وضع کئے گئے جس کے تحت ان اداروں کو تمام اخراجات کی تفصیل اور ہر مد کیلئے حاصل ہونے والے عطیے کی مکمل معلومات فراہم کرنے کا پابند بنایا گیا۔
مثال کے طور پر یتیم خانے کو یہ بتانا ضروری ہے کہ بچوں کیلئے جو کھانا پکتا ہے اس کے لئے آٹا کہاں سے آتا ہے؟ یعنی اس فلور مل کا نام بتانا ہوگا جو آٹا عطیہ کر رہی ہے۔ جس کے بعد مل مالکان غائب کردیے جاتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق دوتہائی کے قریب رفاحی ادارے بند ہوگئے یا چل تو رہے ہیں لیکن ان میں زندگی رمق نہیں۔
کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوگا؟
رفاحی اداروں، مدارس و مساجد کے ساتھ جو ہوگا سو ہوگا، پاکستان میں اصل ہدف فوج، حساس ادارے اور سب سے بڑھ کر جوہری پروگرام ہے۔ رضا باقر اور ڈاکٹر حفیظ شیخ کی دلیل ہوگی کہ ماضی کی تدفین اور جنگ بندی معاہدے کے (( بعد اسلحے اور جدید میزائیلوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ رقم قرض کی ادائیگی کیلئے استعمال ہونی چاہئے۔