اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو بقایا جات کی ادائیگی کے ساتھ پلاٹ دینے کی سفارش کردی۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس منعقد ہوا جس میں پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو نکالے جانے کا معاملہ زیر بحث آیا۔
اجلاس میں وزارت صںعت کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اسٹیل کے نقصانات 230 ارب سے تجاوز کر گئے تھے، حکومت ہر سال 35 سے 40 کروڑ ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں فراہم کرتی تھی۔
حکام نے بتایا کہ اسٹیل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ کیا، نکالنے کا فیصلہ ملازمین سے حتمی مشاورت کے بعد کیا جانا تھا۔ عدالت نے بھی استفسار کیا کہ مل 5 سال سے بند ہے ترقیاں کیسے ہو رہی ہیں۔
بریفنگ کے مطابق اسٹیل ملز کے ذمہ اربوں روپے واجب الادا ہیں، نیشنل بینک کو 51 ارب اور سوئی سدرن کو 62 ارب ادا کرنے ہیں۔ 4 ہزار 544 ورکرز اور ایک ہزار سے زائد آفیسر کیڈر ملازمین کو نکالا گیا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ اسٹیل ملز کی 12 سو 68 ایکڑ اراضی لیز پر دی جائے گی، 30 سے 40 روز میں اراضی اور مشینری کی لاگت کا تخمینہ لگا دیا جائے گا۔ تخمینہ لگانے کے بعد کابینہ کمیٹی نجکاری کا فیصلہ کرے گی، حکومت کا اختیار ہوگا کہ انتظامی معاملات اپنے پاس رکھے۔ 12 کمپنیاں جن میں چین، روس، کوریا اور یوکرین شامل ہیں اسٹیل ملز خریدنا چاہتی ہیں، اسٹیل ملز کی 19 ہزار ایکڑ اراضی کو صنعتی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا گیا ہے۔ 13 جون 2021 تک اسٹیل ملز سے متعلق حتمی فیصلہ کر لیا جائے گا۔
کمیٹی نے ملازمین کے بقایا جات کی ادائیگی کے ساتھ پلاٹ دینے کی سفارش کردی۔ کمیٹی کے رکن اسامہ قادری کا کہنا تھا کہ ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر ان کے بقایا جات دیے جا رہے ہیں۔
ایڈیشنل سیکریٹری نے کہا کہ 6 سال سے مل بند ہے، ملازم کام نہیں کر رہے صرف تنخواہ لے رہے ہیں جس پر اسامہ قادری نے کہا کہ سینکڑوں ملازمین نے خودکشیاں کیں آپ کہہ رہے ہیں تنخواہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت چیزیں بیچ کر خزانے بھر رہی ہے میں اتحادی ہوں لیکن سچ بولوں گا، اگر ملازمین کو فارغ کرنا ہے تو گولڈن ہینڈ شیک کی پالیسی کا بتایا جائے۔
رکن کمیٹی آغا رفیع نے کہا کہ ان اداروں کو چلانے والوں نے اپنی زندگیاں لگائی ہیں، ادارے کو تباہ کرنے میں حکومت اور انتظامیہ کا ہاتھ ہوتا ہے مزدوروں کا کیا قصور ہے۔