انقلاب کی سائنس

0
121

تحریر: حیدر زیدی

جو معاشرہ حکمران طبقہ سے مکمل طور پر نااُمید نہ ہوا ہو، وہ امید رکھتا ہے کہ بعض اصلاحات کے ذریعہ معاشرہ پر حکمراں طبقہ کے حالات میں کسی طرح تبدیلی ایجاد کر کے کم سے کم نقصان پر اپنے مطالبات کو معمول کے مطابق نظام کے اندر ہی پورا کرے۔ اس تحریک اور تبدیلی کواصلاحات کہتے ہیں، جو نظام کے اندرہی تبدیلی ایجاد کرکے اس کو حفظ کرتے ہوئے انجام پاتے وہ کو انقلاب ہے۔

بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں نو آبادی علاقوں میں اجنبیوں کے تسلط کے خلاف عوامی بغاوتیں شروع ہوئیں۔ ان علاقوں کے لوگ یکے بعد دیگرے اپنے ملک کو یورپی قابضوں کے تسلط سے آزاد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انگلستان کے تسلط کے خلاف ہندوستان میں مہا تما گاندھی کی تحریک اور فرانسی تسلط کے خلاف الجزائر کے لوگوں کی بغاوت آزادی کی ان تحریکوں کے نمونے ہیں۔ اس قسم کی عوامی تحریکوں کا مقصد، صرف اجنبیوں سے آزادی حاصل کرنا ہوتا ہے، استعمار کے زیر اثر قائم ہوئے نظام کی قدروں اورثقافت میں تبدیلی لانے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ اس لئے ایسی تحریکوں کو انقلاب کے بجائے آذادی کی تحریکوں کا نام دینا زیادہ مناسب ہوگا۔

لفظ ‘انقلاب’ کی تعریف میں پائے جانے والے تمام اختلافات کے باوجود، ایک نکتہ جو یقینی طور پر ہر ایک کے نزدیک مطلوب ہے وہ یہ کہ انقلاب کا معنی ‘ایک معاشرے کے اندر مختلف جہتوں سے تحول یعنی تحمیلی اقتدار واعتقاد، سیاسی اداروں، اجتماعی ڈھانچوں، قیادت کے آئین واصول اور سرگرمیوں میں فوری اوربنیادی تبدیلی لانے کی ایک تحریک ہے جو تشدد کے ساتھ ہو’۔ اس بنا پر انقلاب کے معنی ومفہوم کی تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان تبدیلیوں کی بنیاد، جہت اورتحریک کے عوامل کے بارے میں توجہ کریں اور انھیں ایک تصویر کے مختلف ٹکڑوں کے مانند ایک دوسرے سے ملا کر ایک مکمل تصویر کی صورت میں انقلاب کی خصوصیات کو اخذ کریں۔

چونکہ انقلاب ایک سیاسی، اجتماعی مظہر ہے نہ کہ صرف علوم سیاسی کے دانشوروں کے مطالعہ کا موضوع ہے، بلکہ سماجی دانشوروں کی توجہ کا سبب بھی ہے اور چونکہ معاشرہ شناسی کا اہم ترین رکن، جس سے معاشرے کی خصوصیات اور اس کی تبدیلیوں کے سلسلہ کی تحقیق کی جاتی ہے، انسانوں کے اجتماعی افعال ورفتار کی شناخت اور اس کی تحلیل ہے، اس بناپر کہا جاسکتا ہے کہ جب تک انسانوں کے افکار و اذہان نہ بدل جائیں، کہ جن کی بناپر وہ عمل کرتا ہے، ان کے اجتماعی کردارمیں بھی تبدیلی نہیں آئے گی اور معاشرے کے افراد کے اجتماعی کردار میں تبدیلی آئے بغیر معاشرے میں کوئی انقلاب رونما نہیں ہو سکتا۔

دوسرے الفاظ میں معاشرہ کی اخلاقی فضیلتوں، معاشرہ میں مو جود معتبر اور رائج ا قدار سماجی لیڈروں کی خصوصیات اور کلی طور پر پورے معاشرہ پر محیط اعتقادات میں تبدیلی معاشرے کے اندرنئے مطالبات اور تقاضوں کے پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ چونکہ معاشرہ کے سیاسی قائد اور حکمران ان نئے مقاصد اور قدروں سے دور ہوتے ہیں، اس لئے یہ تضاد اور تعارض یاد و گانگی معاشرے میں بدامنی اوربے ثباتی کا سبب ایجاد کرتی۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ ہمیشہ انقلاب اس وقت رونما ہوتا ہے جب حالات بگڑ جائیں۔ اس کے برعکس، عام طور پر انقلاب اس وقت رونما ہوتا ہے، کہ جب لوگ طولانی مدت تک کسی اعتراض کے بغیر ایک جابرحکومت میں زندگی گزارتے ہوئے، اچانک احساس کریں کہ حکومت نے ان پر دباؤ ڈالنا کم کر دیا ہے، تو اس کے نتیجہ میں وہ حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں