تحریر: محمد کامران
جیسے جیسے افغانستان پر طالبان کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہےان کے خلاف منفی پروپیگنڈا بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دہشتگرد ہیں؟، کوئی کہتا ہے کہ یہ ظالم ہیں؟، دیسی لبرل ان کو اسلامی دہشتگرد قرار دے رہے ہیں۔
جبکہ کچھ لوگ یہ کہتے دیکھائی دے رہے ہیں کہ طالبان کا اسلام سے تعلق نہیں، اسلام کے نام پر یہ صرف اقتدار چاہتے ہیں۔ اقتدارِ اعلیٰ حاصل کرتے ہی یہ اسلام قوانین کے منافی اقدامات کرتے دیکھائی دیں گے۔ یہ سب سننے کہ بعد انسانی ذہن میں یقیناً مختلف سوالات گردش کرتے ہونگے۔
اگر یہ دہشتگر اور ظالم ہیں تو امریکہ اور ساری دنیا اس کی اتحادی جہنوں نے سترہ سال جنگ کی ان کے ہاتھوں شکست کھا کر اب ان کی زمین چھوڑ کر بھاگ کیوں رہے ہیں؟۔ پوری دنیا کو دہشتگردوں کے ہاتھوں میں بے یارو مددگار کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟۔
اسلام کا ظلم اور دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام تو درحقیقت امن و مساوات اور انصاف کا دین ہے۔ اسلام پر عمل کرنے والا دہشتگرد کیسے ہو سکتا ہے؟ یا دہشتگرد اسلامی کیسے ہو سکتا ہے؟۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سیاسی یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے بنی تنظیموں کے سربراہ بدلے گئے ان کا بیانیہ اور مقصد میں لازمی فرق آیا ہے۔ جب بھی کسی سیاسی تنظیم میں جانیں ضائع ہوئی وہ لازم پیچھے ہٹتے دیکھائی دیے ہیں۔
طالبان کو تو جنگ لڑتے تقریباً چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے تو ان چالیس سالوں میں کبھی بھی ایسا موقع کیوں نہیں آیا جب طالبان نے ہار مانی ہو؟۔ وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے ہوں؟ اگر طالبان اقتدار کے لیے لڑ ریے ہیں تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ درجنوں زہنوں کے کمانڈ کرنے کے باوجود مقصد سے ایک انچ بھی نہ ہٹے ہوں؟۔ ہزاروں جانیں دینے کے باوجود بھی سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوں؟۔
منفی پروپیگنڈا گروپ یقیناَ ان سوالات کے جواب نہیں دے پائے گا لیکن عام عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کچھ تو ہے جو طالبان کو پیچھے ہٹنے نہیں دیتا؟ یقینا وہ اقتدار نہیں ہو سکتا، یقینا ان کا مقصد کچھ بڑا ہے، یقینا انکا مقصد کچھ الگ ہے۔