آلائشیں ٹھکانے لگانے سے قبل کارآمد بنائیں

0
50

تحریر: مقبول خان

عید قربان کی آمد آمد ہے۔ کراچی میں عید قربان کی تینوں دن میں سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے و بیش گیارہ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے جانور راہ خدا میں قربان کئے جاتے ہیں، تین دن میں اتنی بڑی تعداد میں زبح کئے گئے جانوروں کی آلائشیں اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا نظام ایک مشکل ترین کام ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں راہ خدا میں قربان کئے گئے جانوروں کی آلائشیں ٹھکانے لگانے کے لیے شہر کے مختلف مقامات پر کلیکشن پوائنٹس بنائے جاتے ہیں، اور انہیں ایس او پی کے مطابق ٹھکانے لگانے کے لئے 3 لینڈ فل سائٹ رکھی گئی ہیں۔ عید کے دنوں میں قربان کئے گئے جانوروں کی آلائشیں سائنٹیفک طریقے پر ٹھکانے لگانے کےلئے جام چاکرو سرجانی، گوند پاس نادرن بائی پاس اور ملیر میں شرافی گوٹھ سمیت دیگر مقامات پر بڑی بڑی خندقیں کھودی جاتی ہیں۔ جبکہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے حکام کے مطابق شہر بھر سے جمع ہونے والی آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں عملہ اور گاڑیاں مختص کر نے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ لیکن سال ہائے گذشتہ کا مشاہدہ اور تجربہ رہا ہے کہ میئر کراچی، بلدیاتی اداروں اور سندھ سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کی جانب سے کئے جانے بلند بانگ دعوں کے انتظامات کے باوجود عید قربان کے با وجود شہر کے مختلف مقامات کی کچرا کنڈیوں، اور کچرے کے ڈھیروں پر آلائشیں، جانوروں کی باقیات، اور گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں، عید کے پہلے دن تو آلائشیں جمع کرنے اور انہیں ٹھکانے لگانے والا عملہ اور رضا کار متحرک نظر آ تے ہیں، لیکن دوسرے اور تیسرے دن جوش و خروش کا فقدان نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے فضا میں آلودگی بڑھ جاتی ہے، اورتعفن پھیلنے لگتا ہے۔

شہر کراچی میں یہ مشاہدہ عام ہے کہ عید الاضحٰی کے مبارک موقع پر نمازِ عید کے بعد قربانیوں کا عمل شروع ہو جاتا ہے جو 3 دن تک جاری رہتا ہے لیکن قربانی کے جانوروں کی گندگی اور آلائشوں سے تعفن اٹھنے کا سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہتا ہے۔ جس کی ذمہ داری بلدیاتی اداروں کی ناقص کار کردگی کے ساتھ شہریوں پر بھی عائد ہوتی ہے، قربانی سے قبل شہری خریدے گئے جانوروں کی غلاظتوں کو ذمہ داری سے ٹھکانے لگانے کے بجائے گلی محلے کی نکڑ پر گلنے سڑنے کے لیے ڈال دیتے ہیں جس سے نہ صرف گندگی و تعفن پھیلتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، بیماریاں پھیلتی ہیں اور گلی، محلے، شہر کی خوبصورتی الگ خراب ہوتی ہے۔ آلائشوں اور قربانی کے جانوروں کی باقیات کو بروقت ٹھکانے نہ لگانے کا ایک اور بڑا نقصان ہے، جس کی طرف پی آئی اے کے ترجمان نے توجہ دلاتے ہوئے شہریوں کو متنبہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ کہ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں کھلے علاقوں بالخصوص ایئر پورٹ کے اطراف آلائشیں پھیلانے سے گریز کریں۔ ترجمان پی آئی اے کے مطابق جانوروں کی آلائشوں اور ان کی باقیات سے اپنی خوراک حاصل کرنے کےلئے فضا میں منڈلانے والے پرندے جہازوں کے ٹیک آف اور لینڈنگ کے وقت سنگین حادثات کا سبب بن سکتے ہیں۔ عید قربان کے دنوں میں صفائی ستھرائی پر مامور بلدیاتی ادارے اور ہرکارے جہاں اپنے کام میں سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں عوام الناس کی طرف سے بھی صفائی کی انفرادی کوششوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ اگرچہ بنیادی طور پر یہ بلدیاتی اداروں اور اہلکاروں کی ہی ذمہ داری ہے کہ عید الاضحٰی کے موقع پر صفائی کے انتظامات کو یقینی بنائیں، لیکن اس حوالے سے عوام الناس بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ عوام کو چاہیے کہ جس اہتمام سے وہ جانور خریدتے ہیں، اس کی خدمت کرتے ہیں، قربانی کے لیے قصائی کا بندوبست کرتے ہیں، گوشت بانٹتے اور پکا کے کھاتے کھلاتے ہیں، اسی اہتمام سے قربان کیے گئے جانوروں کی آلائشوں اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی بلدیاتی اداروں کی جانب سے کئے گئے انتظامات میں اپنا کردار بھی ادا کریں، لیکن شہریوں کی جانب سے ایسا نہیں کیا جاتا ہے۔

عید الضحیٰ پر قربان کئے جانوروں کی آلائشوں اور ان کی باقیات کے حوالے سے ماہرین کی رائے ہے کہ بلدیاتی ادارے ان آلائشوں اور باقیات کو ٹھکانے لگانے سے قبل اگر عیدالاضحیٰ کے موقع پر صرف کراچی سے جمع کی گئی آلائشوں کو ہی ری سائیکل اور انہیں موثر طریقے پر استعمال کیا جائے تو بلدیاتی حکام اس سے تقریباً 4.8 ارب روپے کما سکتے ہیں۔ جبکہ مزید محنت کی جائے تو آمدنی کے اس تخمینے میں 1.2 بلین روپے اضافہ ہوسکتا ہے۔اس حوالے سے گذشتہ سال ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کراچی کے جنرل سیکرٹری شوکت مختار نے ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ آلائشوں کو خندقوں میں ٹھکانے لگانے سے قبل ان میں موجود مائع فضلہ جمع کیا جائے، اور اسے فصل کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، دوسرے مرحلے میں ہم آلائشوں سے ‘ٹرائپ’ (اوجڑی) حاصل کر سکتے ہیں، مقامی مارکیٹ میں اوجڑی کی قیمت تقریباً 300 روپے فی کلو ہے، اگر ہم اسے چین کو برآمد کریں تو اس کی قیمت تقریباً 1200 روپے فی کلو ہو گی، کیونکہ وہاں ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔

شوکت مختار کے اندازے کے مطابق ایک جانور میں تقریباً ایک کلو اوجڑی ہوتی ہے، اور پاکستان بھر میں ہر سال تقریباً 40 لاکھ جانور قربان کیے جاتے ہیں، اگر اس اوجڑی کو چین کو برآمد کیا جائے تو اس سے 4.8 بلین روپے آمدنی ہو سکتی ہے۔ شوکت مختار کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا اور یورپی ممالک جانوروں کی آنتوں کی فراہمی کے لیے اہم منڈیاں ہیں، تھوڑی سی توجہ اور محنت سے ہم زر مبادلہ کے حصول کے ایک اور آئٹم کا اضافہ کر سکتے ہیں۔

اگر ہم ہر سال عید قربان پر آلائشوں کو منظم انداز میں جمع کر کے انہیں ٹھکانے لگانے سے قبل اس کے مائع فضلہ اور اس کی اوجڑی کو کارآمد بنانے پر توجہ دیں، تو شہر کی صفائی کے ساتھ اس سے بلدیاتی اداروں کو آمدنی بھی ہو سکتی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں