تحریر: نذیر لغاری
رسول بخش پلیجو کو ہم سے بچھڑے یہ پانچواں جون آگیا ہے۔ مجھے 6 جون 2018ء کی وہ شام یاد ہے جب میں دادا قادر رانٹو اور عوامی تحریک کے دیگر دوستوں کے ہمراہ سٹی اسپتال کی بنچوں پر بیٹھا تھا، اسپتال کی بالائی منزل پر رسول بخش پلیجو وینٹی لیٹر پر مصنوعی سانس لے رہے تھے اور میرے ذہن میں داغ دہلوی کا شعر گردش کر رہا تھا،
دیکھ لینے کو ترے سانس لگا رکھا ہے،
ورنہ بیمارِ غمِ ہجر میں کیا رکھا ہے۔
میں بہت اندر سے خود کو بجھتا محسوس ہو رہا تھا، ہم پلیجو صاحب کے بات کرنے کے انداز سے ہمیشہ یہ محسوس کرتے تھے جیسے کھلے میدانوں میں دریائے سندھ بہہ رہا ہو یا صحرا کی رات میں کوئی خواجہ غلام فرید کی کافی سنا رہا ہو۔ پھر اگلے صبح سندھ دھرتی کے اس سدا یاد رہ جانے والے بیٹے کو اجل لے گئی۔
رسول بخش پلیجو 21 ستمبر 1930ء کو سندھ کے ایک مشہور شہر جنگ شاہی کے نواح میں واقع گاؤں منگر خان پلیجو میں علی محمد پلیجو اور لاڈی مائی کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم جنگ شاہی اور ٹھٹھہ میں حاصل کرنے کے بعد سندھ مدرستہ الاسلام سے سیکنڈری کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں ایس ایم لاء کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اوائل عمری میں ہی اردو، انگریزی اور فارسی میں عبور حاصل کرلیا۔ مادری زبان سندھی ہونے کی وجہ سے وہ سندھی کے کلاسیکی اور جدید ادب کے نہ صرف بہترین قاری تھے بلکہ سندھی ادب میں نئے رجحانات کے بانی بھی قرار پائے۔ مذکورہ زبانوں کے علاوہ سرائیکی، بلوچی، پنجابی، عربی اور بنگالی میں بھی خاصی مہارت رکھتے تھے۔ ادب، تاریخ، فلسفہ، سیاسیات، تصوف، علم الادیان، مصوری، موسیقی، علم الآثار اور نفسیات ان کے خاص مضامین تھے اور ہر موضوع اور مضمون پر وہ ساحرانہ گفتگو کرتے تھے۔ سندھی زبان کے صف اول کے افسانہ نگار نقاد، مورخ اور محقق کے طور پر انہوں نے ایک درجن سے زائد سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ انہیں سندھ میں لطیفیات کا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے علاوہ بابا بلھے شاہ، شاہ حسین، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید، سچل سرمست اور میاں محمد بخش کی شاعری کے بہترین شارح تصور کئے جاتے تھے۔ روایتی سندھی ادب پر ان کی جارحانہ اور بے رحمانہ تنقید کی کتاب “اندھا اوندھا ویج” نے ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
اس کتاب کی اشاعت پر سندھ میں عوام دوست اور عوام دشمن ادب میں کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی گئی۔ بنگال کے سانحہ پر ان کی کتاب جيڪي بنگال سان ٿيو (جو کچھ بنگال کے ساتھ ہوا) میں چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے۔ان کی دو کتابوں صبح تھیندو (صبح ہوگی) اور سندی ذات ھنجن (ان کی ذات ہی ہما ہے) نے سندھ میں باشعور سیاسی کارکنوں کی ایک کھیپ تیار کی۔
رسول بخش پلیجو نے 1960ء سے ترقی پسند تحریک کے ایک کارکن کے طور پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد جدلیاتی مادیت اور تاریخی مادیت کے اصولوں پر رکھی۔ انہوں نے کارل مارکس، فریڈرک اینگلس، ولادیمیر ایلیچ لینن، ماؤزے تنگ اور ہوچی منہہ کی تحریروں اور تحریکوں کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے یورپ کی روشن خیالی کی تحریک کے فلسفیوں عمانوئیل کانٹ، ہیگل اور بریخت کا مطالعہ کیا۔ وہ 1967ء کی سندھی طلبا کی تاریخ ساز تحریک کے ایام میں ان لوگوں میں شامل تھے جو اس تحریک کو فکری اور علمی مواد فراہم کررہے تھے۔ 1969ء میں ون یونٹ کے خاتمے اور انتخابی فہرستیں سندھی میں شائع کرانے کی تحریک کے صفِ اول کے رہنما کے طور پر انہوں نے سندھ کی سیاست میں نئے انقلابی رویوں کی بنیاد رکھی۔ گو آج یہ بات بہت معمولی معلوم ہوگی لیکن 1969 اور 1970 میں اسپتال میں بیماری کے دوران بستر پر ہوتے ہوئے اپنے گھر سے میٹرک کی طالبہ کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے احتجاج کیلئے بھجوانا اور اس کا گرفتاری کیلئے پیش ہونا سندھ کا ایک بڑا واقعہ تھا۔ 1965ء میں جب رسول بخش پلیجو نے سندھ کی لوک فنکارہ اور سندھی موسیقی کی ملکہ زرینہ بلوچ سے شادی کی تو وہ دو بچوں ادی اختر بلوچ اور اسلم پرویز کی والدہ تھیں۔ اختر بلوچ اس وقت پانچویں کلاس کی طالبہ تھیں۔ جب وہ میٹرک میں پہنچیں تو ون یونٹ کے خلاف تحریک زوروں پر تھی اور اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ سندھ یونیورسٹی کے طلبہ عام انتخابات سے قبل انتخابی فہرستوں کی سندھی میں اشاعت کیلئے احتجاج کر رہے تھے۔ ان دنوں گرفتاریاں زوروں پر تھیں۔ نومبر 1969ء میں اختر بلوچ فرسٹ ائیر کی طالبہ تھیں۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے سامنے گرفتاری پیش کی۔ وہ دن کے ڈھائی بجے سے رات کے پہلے پہر تک اپنی گرفتاری کا انتظار کرتی رہیں۔ اس دوران تاریخ رقم ہوتی رہی۔ ڈاکٹر کامل راجپر، اقبال ترین، یوسف ٹالپر، میر رسول بخش ٹالپُر، روشن پنہور، حسین شاہ بخاری، مسعود نورانی، حیدر بخش جتوئی کے اہلِ خانہ اور امداد حسینی ڈپٹی کمشنر ہاؤس آئے اور رسول بخش پلیجو کے گھر کی بچی کو بڑے دھوم دھام سے جیل روانہ کیا۔ کچھ عرصے میں رہائی کے بعد اختر بلوچ نے دوبارہ گرفتاری پیش کی اور اسیری کے دوران اپنی ڈائری لکھی۔ یہ ڈائری قیدیانی کی ڈائری کے نام سے شائع ہوئی۔
اس ڈائری میں نہایت سادگی سے جیل میں قیدی عورتوں کی زندگی کے شب و روز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایک جاگیردارانہ سماج کے انتہائی نچلے طبقے کی دیہی عورت کی نفسیات کیا ہوتی ہے، اس کے سوچنے کا انداز کیا ہوتا ہے۔ سماجی اور خونی رشتوں کے بارے میں اس کے رویئے کیا ہوتے ہیں۔ اس کی شخصیت کی تعمیر یا شکست وریخت کیسے حالات میں ہوتی ہے۔ اس کی بے بسی اور لاچارگی کا آخری سہارا قسمت ہی کیوں ہوتی ہے۔ اس کا غم کیا ہوتا ہے اور خوشی کیا ہوتی ہے۔ قیدیانی جی ڈائری ان بنیادی سوالات کا احاطہ کرتی ہے۔ پھر جب رسول بخش پلیجو نے سندھی سماج میں عورتوں کے اس انتہائی نچلے طبقہ کی تنظیم سازی کے بارے میں فیصلہ کیا تواس کے دیگر بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ قیدیانی جی ڈائری کے مندرجات بھی پیشِ نظر رہے ہوں گے۔ جنرل ضیاء کی خوف اور دہشت پر قائم آمریت کو جس دلیری اور جرات کے ساتھ سندھیانی تحریک نے للکارا تھا وہ سندھ کی تاریخ کا ایک روشن اور لازوال باب ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب رسول بخش پلیجو کے گھر سے تمام بہنیں، بیٹیاں، بھابھیاں اور دیگر رشتہ دار عورتیں اپنے بچوں سمیت گرفتاریاں پیش کرکے جیلوں میں چلی گئی تھیں۔ ان دنوں عوامی تحریک کے دیگر سیاسی کارکنوں کے گھروں کی عورتوں نے بھی گرفتاریاں پیش کی تھیں۔ سندھ کی جیلوں میں قید عورتوں سے سیاسی قیدی عورتوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔
رسول بخش پلیجو نے 1970ء کے عشرے میں عوامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم میں میر علی بخش ٹالپُر، فاضل راہو، سید عالم شاہ، لکھانو بہرانی، قادر رانٹو، گل حسن کیرانو (ماما عارب) محمد خان مگسی ،ڈاکٹر غفار قاضی اور دیگر کئی رہنما ان کے شریک سفر تھے۔ انہوں نے سندھ کی سیاست میں نئے تجربات کئے اور یوں وہ ایک روایت شکن سیاستدان کے طور پر اُبھرے۔ 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران وہ پچھلے کئی سالوں سے جیل میں تھے مگر جیل میں ہوتے ہوئے جس انداز سے تحریک میں حصہ لیا اور اس تحریک میں عوامی تحریک نے جو کردار ادا کیا وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
قیدیانی جی ڈائری کی مصنفہ ادی اختر بلوچ سینیٹر سسی پلیجو کی والدہ اور رسول بخش پلیجو کے چھوٹے بھائی غلام قادر پلیجو کی اہلیہ ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب گملوں میں اُگائے اور پالے پوسے جزوقتی اور کل وقتی سیاست بازوں نے سیاست کو محض حکمران طبقوں کی دلبستگی کا سامان بنادیا ہے، ایسے عالم میں ادی اختر کے نام جیل میں بھیجا گیا یہ خط اس امر کی یاد دلائے گا کہ سیاست کا ایک انداز ایسا بھی ہوتا ہے۔ اختر بلوچ کو گھر میں رسول بخش پلیجو، زرینہ بلوچ اور دیگر اہل خانہ زینا کے نام سے پکارتے تھے۔
زینا
جیئے سندھ
دوسری جنگ عظیم میں روسی فوجوں کی شکست اور فتوحات کی تاریخ پڑھ کر ابھی ابھی کتاب رکھی ہے۔ ایک لمحے میں خیالات کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ ہماری خوشیاں اور غم دوسری قوموں کے مقابلے میں کس قدر کمتر، کہتر، معمولی اور لاحاصل ہیں۔ ہم کس قدر چھوٹے، نہایت چھوٹے لوگ ہیں۔ ہمیں کس قدر بڑا، بہت وسیع، راست باز، بہادر اور شاندار ہونا چاہیئے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ ہمارے وطن میں سچائی، خلوص، قربانی، سچی اور بے لوث ہمدردی اور اپنے پن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ کسی شخص میں فراخدلی، مستقل مزاجی، حوصلہ مندی اور خود اعتمادی نہیں۔ ہر شخص اپنی گھٹیا، کمینی، رذیل اور تنگ نظر جبلتوں اور جاہلانہ خواہشوں کا قیدی ہے۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ ان کا اپنا ذاتی مفاد کن چیزوں میں ہے اور اس کیلئے کون سا راستہ موزوں ہوگا۔ اگر لوگ اپنا ذاتی مطلب بھی اچھے، موزوں اور زیادہ سے زیادہ گارگر طریقے سے حاصل کرتے تب بھی یہ دنیا اس قدر زیادہ ناقابل برداشت نہ ہوتی۔ گُڑ اور تیل سے بنی مٹھائی بھی کھالیں مگر اس پر مکھیوں کی تہہ تو نہ جمی ہو۔ یہاں تو خواہشات اور مقاصد انتہائی پست اور ازکارِ رفتہ ہیں بلکہ انہیں حاصل کرنے کے طریقے بھی اس سے دُوگنے گندے اور جی کو متلانے والے ہیں۔ بے حیائی دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر اختیار کی جاتی ہے اور شرم وحیا سے خاموش ہوجانے کو بے وقوفی اور جہالت سمجھا جاتا ہے۔
یہ نومبر اور رمضان کا مہینہ ہے اور اس سال بھی نومبر اور رمضان میں تم جیل میں ہو۔ پچھلے اسی مہینے میں اور تمہاری ماں شدید بیماری سے بچ کر صحت یاب ہوئے تھے۔ اس سال کم وبیش وہی صورت ہے البتہ ہم دونوں اسپتال کے بجائے گھر پر ہیں۔ گزشتہ سال بھی عید کے روز ہمیں کوئی خوشی نہیں تھی اور اس سال بھی وہی اداسی اور انتظار ہوگا۔ دو برس قبل میں نے عید جیل میں گزاری تھی۔ گزشتہ برس تم نے عید جیل میں گزاری اور اس سال بھی تم عید جیل میں گزارو گی۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ زندگی کی یہ نرالی، تلخ، بچھڑی ہوئی تنہا عیدیں وطن اور وطن کے لوگوں کے لوگوں کیلئے کسی قدر دل لبھانے والی، میٹھی اور خوشیوں سے معمور عیدیں کب بنیں گی۔ ان اجنبی عیدوں نے ہمیں بہت زیادہ اپنا پن، خود شناسی، اپنے پہچانے جانے اور اپنی شناخت کا سرمایہ دیا ہے۔ ہماری زندگیوں میں کس قدر نیاپن، انوکھا پن اور نرالاپن کا مایا اور مادہ پیدا ہوا ہے۔ ہماری زندگیاں تو بہت بامعنی، بھرپور اور بامقصد بن گئی ہیں۔