تحریر: محمد شعیب یار خان
عروس البلاد کراچی جو لاکھوں غیر مقامی افراد کے روزگار کا مسکن ہے وہیں یہ شہر مسائل کے انبار میں گھرا دکھائی دیتا ہے کہیں سیوریج کے مسائل کہیں سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث عوام کی قیمتی گاڑیوں اور متوسط طبقےکی پسندیدہ سواری موٹر سائیکلوں کو پہنچنے والے نقصان، نہ صاف پانی نہ بہتر آب و ہوا، فضائی آلودگی کے سبب دنیا بھر میں جگ ہنسائی الگ، خیر سے شاید ہی ایسا کوئی مسئلہ یہاں کے باسیوں کو درپیش نہ ہو جس کا تصور ایک ایسے شہر سے جس کا ہر فرد سرکاری خزانے میں اپنی کمائی کا بھرپور حصہ ڈالنے کے باوجود کسی بنیادی سہولت سے فیض یاب ہونا دور کی بات سوچ بھی نہیں سکتا موبائل فونز سے لیکر اپنی قیمتی اشیاء کا محروم ہونا معمول، راہزنوں، چوروں ڈکیتوں کی آماجگاہ بنے شہر کا کوئی پرسان حال نہیں، ان جیسے بہت سے مسائل کے ساتھ ایک انتہائی توجہ طلب مسئلہ شہر بھر میں دندناتے پھرتے گداگروں کی فوج ہے جو پورے ملک سے آکر کراچی والوں کا بے رحمی سے شکار کررہی ہے۔
بھیک مانگنے کے نت نئے طریقے اپنائے یہ فقیر شہر کے مخیر حضرات سے لیکر غربت کے مارے سادہ لوح افراد تک سے بھی روزانہ کی بنیاد پر پیسے اینٹھنے کے فن میں یکتا ہیں۔ ان گداگروں کی موجودگی یہاں کے شہریوں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہی نہیں شدید ناگوار بھی ہے آپ کہیں بھی جائیں کہیں سے بھی گزریں آپ کے پاس اضافی پیسے ہوں نہ ہوں پیشہ ور بھکاریوں کے مانگنے کی تکرار ہر کسی کو ذہنی بیمار بنانے کا سبب بن رہی ہے۔ یہ افراد کراچی شہر سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لاکھوں روپے بٹورتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں ہزاروں کی تعداد میں مانگنے والوں کی تعداد ملک کے کسی بھی شہر میں پائے جانے والے گداگروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سب کی قصوروار ریاست ہی ہے جو ان گداگروں کو نہ روکتی ہے نہ ان کی تعداد میں کمی لانے کے لئے کسی بھی طرح کے اقدامات کرتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہاں کے شہری بھی بڑے دیالو ثابت ہوئے ہیں انہیں اپنے ہمسائے، قریبی رشتے داروں، سفید پوش ضرورت مندوں کی تو کوئی خبر یا فکر ہو نہ ہو مگر اپنی آخرت سنوارنے یا دیرینہ مسائل و مصائب سے چھٹکارے کے لئے ان پیشہ ور فقیروں کو نوازنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جاتے ہیں۔
کراچی شہر اس وقت ایسے بےشمار زبردستی کے فقیروں کا مستقل گھر بن چکا ہے جو یہاں پورے دن محنت مزدوری کرنے والے محنت کشوں کے حق پر مسلسل ڈاکہ ڈال رہے ہیں جو حق حلال روزی کی تلاش میں اس شہر میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا ہونا یہ نہیں چاہئیے کہ محنت مزدوری کرنے والوں، فیکٹریوں، دوکانوں، دفاتر میں کام کرنے والے افراد کی اجرت میں اضافہ کرکے ان کی دل جوئی سے رب کی رضا حاصل کی جائے، اپنے آس پڑوس میں جان پہچان والے ضرورت مندوں کی مدد کی جائے گھروں میں محنت کرنے والے مرد و خواتین کی امداد کرکے ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ ان کی دعائیں لی جائیں نہ کہ سال ہا سال سے مسجدوں میں، ٹریفک سگنلز، سڑکوں چوراہوں پر مانگنے والوں کی جیبیں گرم کر کے انہیں مزید کاہل اور مستقل مانگنے کا عادی بنائیں۔ نیز عوام اور مخیر حضرات کے تعاون سے مختلف این جی اوز کی جانب سے لگائے گئے دستر خوانوں پر ایسے ہی ہزاروں افراد کو روزانہ کی بنیاد پر کھانا کھلایا جانا معمول ہے۔ یہاں بھی زیادہ تر وہی مستفید ہوتا ہے جو کوئی کام کاج نہ کرکے مفت میں پیٹ بھرنے کا عادی ہو ضرورت مند غیرت دار جو ہاتھ پھیلانے سے بہتر محنت سے روزی کمانے کے قائل ہیں کبھی ایسے مقام پر دکھائی نہیں دے گا۔ اس طرح کے دستر خوان ان گداگروں اور محنت سے جان چھڑانے والوں کے لئے کسی سرمائے سے کم نہیں۔ گداگروں کی بہتات اس شہر کے مسائل میں اب مزید اضافے کا سبب بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح سے مستقل بھیک مانگنے کا اسلام میں کوئی تصور ہے؟ کیا محنت کئے بغیر لوگوں کے آگے ہاتھ پھلانے والے کو بھیک دینا لازم ہے؟ کیا یہ ہم پر فرض ہوچکا ہے کہ مسجدوں سے بازاروں تک ایسے غیر مستحق افراد کو مسلسل برداشت کریں؟ کیا حکومت ان گداگروں کے آگے بھی بے بس ہے جو کئی سالوں سے صبح سے رات تک دندناتے پھررہے ہیں کوئی ان سے پوچھنے والا روکنے والا نہیں؟ یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ آخرت میں سوال یہ ضرور ہوگا کہ ہم نے اپنے قریبی رشتے داروں، جاننے والے ضرورت مند مستحقین کی ضرورت کو پورا کیا یا جانتے بوجھتے ان پیشہ ور گداگروں کو مزید ناکارہ بناکر آخرت بنانے میں لگے رہے۔ ابھی وقت ہے عوام کو چاہئیے کہ ان پیشہ ور بھکاریوں کی سخت مذمت کریں اگر مدد ہی کرنی ہے تو سرکاری ہسپتالوں میں جائیں وہاں بہت سے ضرورت مند اپنے پیاروں کو بچانے کے لئے مدوسرے شہروں سے پریشان ہورہے ہیں۔ ان تیمارداروں کی مدد کریں ان کو اور دیگر ضرورت مندوں کو مطلوبہ ادویات یا کھانے پینے میں ان کی مدد کریں اپنے دفاتر میں کم آمدنی والے افراد کی مدد کریں، پھل، سبزی فروش شدید سردی گرمی برسات میں ٹھیلوں پر گلیوں میں سبزی، پھل بیچتے ہیں ان سے اللہ کی رضا کی خاطر بغیر قیمتیں کم کرائے خریداری کریں جو گھروں میں ماسیاں کام کررہی ہیں، سیکیورٹی گارڈز، آفس بوائے یا اسی طرح سے محدود آمدن والے افراد کی ہر مہینے امداد کریں۔ یقینا اللہ کریم نیتوں کو جانتے ہیں وہ ایسے صدقے کو ضرور قبول و مقبول فرمائیں گے نہ کہ عادی مانگنے والے کو دیئے ہوئے صدقے کی اہمیت ہوسکتی ہے۔ اب تو ان پیشہ ور بھکاریوں نے بیرون ملک بھی پاکستان کا نام بدنام کیا ہوا ہے خلیجی ممالک میں ہمارے ملک سے گئے گداگروں کی بہتات اور ان کی گرفتاریاں وہاں موجود محنت کرنے والے پاکستانیوں کے لئے بھی شرمندگی کا سبب بن رہی ہیں اب تو ان پیشہ ور بھکاریوں کی وجہ سے بیرون ملک جانے والوں کے لئے ویزوں کے حصول میں بھی شدید دشواریوں ہوچکی ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان گداگروں کو کنٹرول کرے قوانین بنائے ان کو محنت مزدوری کی طرف راغب کرنے کے لئے سخت اقدامات کرے اور محنت مزدوری کرنے والوں کو جائز اُجرت دے کر انہیں فوقیت دی جائے اور بھیک مانگنےاور اس پیشے کے فروغ کے رجحان کو ختم اور اس مافیا کی ہر سطح پر سرکوبی کی جائے عوام کو بھی چاہیئے کہ ایسے عناصرکا مکمل خاتمہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔