سوال

0
59

تحریر: محمد اویس شاہد

عالمی مفکر “جارج گورڈن بائرن” کا ایک جملہ نظر سے گزرا جس میں موصوف نے کہا “جو لوگ سوال نہیں اٹھاتے وہ منافق ہیں, جو سوال کر نہیں سکتے وہ احمق ہیں اور جن کے ذہن میں سوال اٹھتا ہی نہیں وہ غلام ہیں”۔ موصوف کا کلام ظاہراً بڑی جاذبیت کا حامل ہے لیکن صرف ظاہری پہلو بیان کر کے وضاحت سے پہلو تہی برتنا مناسب نہیں۔ اسلام سوال کے جن اصولوں کو بیان کرتا ہے وہ بڑے جامع اور اخلاقی اقدار پر مبنی ہے۔

1: جو لوگ سوال نہیں اٹھاتے وہ منافق ہیں۔
واضح رہے کہ ہر مقام پر سوال و جواب کی نشستیں سجانا کہیں کی عقل مندی اور بہادری نہیں۔ خصوصاً اساتذہ اور والدین کے سامنے سوال و جواب اور بحث مباحثہ باعث ہلاکت ہے۔ سوال کے جو آداب و رعایات ہیں ان کے تحت اسلام کھل کر سوال کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن سوال کے تحت بڑوں سے بحث و مباحثے کا ماحول بنا لینا خطرناک امر ہے۔ دراصل انہی مغربی مفکرین کے ان دو لائنوں والے اقوال نے وہاں کی عوام کی ذہنی سطح کو بھی دو لائنوں تک محدود کر دیا۔ اب مغرب میں نہ والدین سے گفتگو کا پاس ہے نہ اساتذہ کی تکریم اور غیر محسوس طور پر یہ ناسور مسلم نوجوانوں میں بھی منتقل ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے ہی بے محل اور کثرت سوالات کے رد میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ “تم سے پہلے والے لوگ کثرت سوالات اور انبیاء کرام سے اختلاف کی بنا پر ہلاک ہوئے”۔
لہذا مخاطب کی بات کو رد کرنے کے لئے سوال کرنا اور اس کے رتبے کی پرواہ نہ کرنا کم ظرفی، عناد اور اختلاف کے سوال کچھ نہیں۔

2: جو سوال نہیں کر سکتے وہ احمق ہیں۔
سوال نہ کر پانا ہمیشہ حماقت نہیں ہوتا، بسا اوقات رشتوں کی لاج، محفل کا پاس، بڑوں کا اکرام اور حیاء بھی آڑے آجاتی ہے۔ کسی کو زبردستی سوال پر ابھارنا اور بے جا بے محل سوالات پیش کر کے سامنے والے کو عاجز کرنا مقصود ہو تو یہ بھی بڑے خطرے کی بات ہے۔ اس کے ضمن میں انسان کے اندر ایسا کِبر پیدا ہو جاتا ہے جو اس کے ایمان کو دیمک کی مانند کھانا شروع کر دیتا ہے اور بلا آخر کھوکھلا کرکے کفر کے گھن چکر میں دھکیل دیتا ہے۔ لہذا ایسے امور سے متعلق سوالات کرنا جو عوام الناس سے تعلق رکھتے ہیں مناسب بھی ہے اور افضل بھی لیکن ایسے امور جو عوام الناس کے لئے نہیں بلکہ اہلِ علم یا ایک شعبے سے متعلقہ افراد کے لئے ہوں ان کی بے جا ٹوہ میں لگنا اور کثرتِ تفتیش میں مبتلا ہونا از خود حماقت ہے، جو انسانی ذہن کو ماوارء العقل امور کی جانب التفات دلا کر گمراہ کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اسی لئے آج مسلم معاشرے میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ذہن تیزی سے سیکولر ازم اور لبرل ازم کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ اس لئے کہ خدا کا وجود، مذہب کی حقیقت، تقدیر کی اصل، معجزات کے ظہور کا منبع، وحی کی کیفیات یہ سب ایسے امور ہیں جو ماوراء العقل ہیں اور نوجوان طبقہ تیزی سے انہی کی تفتیش کرنے میں مبتلا ہے جو ان کے ایمان کے لئے زہرِ قاتل ہے۔

3: جن کے ذہن میں سوال اٹھتا ہی نہیں وہ غلام ہیں۔
یہ واحد جملہ ہے جو اسلامی اقدار کے مطابق ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے، کائنات کو اس انسان کے لئے مسخر کیا گیا ہے۔ عقل جیسی عظیم نعمت خدائے وحدہ لاشریک کے ثبوت کے لئے ایک ریڈار کی حیثیت رکھتی ہے۔ کائناتی نظام کے مشاہدے اور مطالعے کے باوجود اگر انسان کے ذہن میں حق کے حق میں سوال نہ ابھرے تو انسانیت کا مقصد؟ سوال اٹھنا، ذہن میں پیدا ہونا ایک فطری انسانی عمل ہے، اسے بہتر طور پر حق کے حصول کے لئے پوچھنا انسانیت کا فریضہ ہے، لہذا جن کے اذہان کی مقفل ہوں، ہر حق و باطل کے ظاہر سے متاثر ہو کر فیصلہ کرتے ہوں تو ایسا انسان ایک حد گزرنے کے بعد باطل کی چکا چوند پر ہی رک جائے گا۔ لہذا سوال نہ اٹھنا غلامی ہے، نفس کی غلامی، خواہشات کی غلامی، انسانوں کے رتبوں کی غلامی، ایسے غلام اپنی نسلوں کو بھی غلام ہی چھوڑ جاتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں