کراچی: سینئر اسپیشل سیکریٹری سندھ اسمبلی محمد خان رند نے وفاقی تحقیقاتی کے ڈائریکٹر جنرل ادارے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کو سندھ اسمبلی کے ایڈیشنل سیکریٹری کے خلاف تحقیقات بند ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ازسر نو انکوائری شروع کرنے کے لئے خط لکھ دیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق سندھ اسمبلی میں چوکیدار کی پوسٹ سے ایڈیشنل سیکریٹری بننے والے محمد حبیب سمیجو پر نادرا اور اکاوئنٹنٹ جنرل آفس میں مبینہ طور پر سروس ریکارڈ تبدیل کرنے کا الزام ہے۔
درخواست گزار سینئر اسپیشل سیکریٹری سندھ اسمبلی نے ایڈیشنل سیکریٹری محمد حبیب سمیجو پر الزام عائد کیا ہے کہ ایڈیشنل سیکریٹری نے اپنے پیدائشی سرٹیفیکٹ میں اپنی عمر 8 برس کم کروائی ہے اور جس کی وجہ سے وہ 18 برس کی عمر کے بجائے محض 13 برس کی عمر میں ہی سندھ اسمبلی میں سرکاری ملازم یعنی چوکیدار بھرتی ہو گئے تھے۔ محمد حبیب سمیجو نے اپنے پیدائشی سرٹیفیکٹ میں تبدیلی کرتے ہوئے اپنی تاریخ پیدائش 1969 ظاہر کی ہے اور اسی بنیاد پر 1982 میں چوکیدار کی حیثیت سے سرکاری ملازمت حاصل کی تھی۔ اس طرح یہ پہلا سرکاری ملازم ہے جسے 18 برس کے بجائے 13 برس کی عمر میں سرکاری ملازمت ملی ہے جبکہ قانون کے مطابق 18 برس سے کم عمر کو سرکاری ملازمت نہیں مل سکتی۔
ایڈیشنل سیکریٹری محمد حبیب سمیجو کے خلاف سندھ حکومت کے قانون ساز ادارے میں قانون کے ساتھ مذاق کرنے پر ایف آئی اے میں انکوائری شروع ہوئی اور تفتیشی افسر صبا جعفری نے ریکارڈ کی چھان بین کئے بغیر ہی انکوائری بند کرنے کی سفارش کی، جس کو اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کے انچارچ ڈپٹی ڈائریکٹر علی مراد بلادی نے بھی من و عن تسلیم کرتے ہوئے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو انکوائری ختم کرنے کی سفارش کردی۔ بعد ازاں ایف آئی اے زونل بورڈ کے اجلاس میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ زون عبداللہ شیخ جن کے پاس اضافی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ساوتھ کا بھی چارج ہے انہوں نے بھی مزکورہ افسران کی سفارش قبول کرتے ہوئے انکوائری کو ختم کردیا۔
ایف آئی اے سندھ افسران کے اس رویے اور کردار کی وجہ سے سینئر اسپیشل سیکریٹری نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو خط لکھتے ہوئے ایف آئی اے کراچی کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل میں بند ہونے والی انکوائری نمبر 54/2022 کو دوبارہ کھولنے کے ساتھ ریکارڈ فراہم کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ایڈیشنل سیکریٹری سندھ اسمبلی محمد حبیب سمیجو نے سندھ اسمبلی میں ملازمت کے لئے جمع کرائے گئے دستاویزات میں ہیر پھیر کی ہے۔ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور اکاوئنٹنٹ جنرل آفس کے افسران کی ملی بھگت سے جعل سازی کی ہے اور تفتیشی افسر سب انسپکٹر صباء جعفری کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کو دسمبر 2021 میں تحقیقات کی درخواست کی گئی تھی اور اس درخواست پر 2022 میں انکوائری رجسٹرڈ ہوئی تاہم پہلے دن سے اے ایچ ٹی سی میں تعینات تفتیشی افسر صباء جعفری نے انکوائری کو میرٹ پر چلانے کے بجائے تمام ریکارڈ کو نظر انداز کیا۔ مبینہ طور پر شروع سے ہی انکوائری ‘سفارش’ کی نذر کر دی گئی تھی۔ جس پر درخواست گزار نے چار بار ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی کو خط لکھے،ان خطوط کے نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی عبداللہ شیخ نے یکم اگست کو انکوائری کو میرٹ پر چلانے کی ہدایت کے ساتھ اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل انچارچ علی مراد بالادی کو انکوائری کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ دینے کی بھی ہدایت کی۔
تاہم حیرت انگیز طور پر اگلے ہی دن 2 اگست کو اس انکوائری کو ڈائریکٹر عبداللہ شیخ نے زونل بورڈ کے اجلاس میں بند کر دیا اور عملی طور پر ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی عبداللہ شیخ نے اپنے ہی احکامات کی نفی کر دی۔ جس پر ایف آئی اے کے افسران سمیت سندھ اسمبلی کے دیگر افسران میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ تفتیشی افسر نے تمام حقائق اور شواہد ملنے کے باوجود اس انکوائری میں دلچسپی نہیں لی اور انکوائری کو چلانے کے بجائے اسے بند کرنے کو ترجیح دی جب کہ تفتیشی افسر کو جو شواہد فراہم کئے گئے اس سے متعلق انکوائری کی زد میں آنے والے حبیب سمیجو سے دستاویزات کی روشنی میں سوالات تک نہیں کئے گئے۔
درخواست گزار نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو از سرِ نو اس انکوائری کو شروع کرنے کے لئے خط میں لکھا ہے کہ کسی دوسرے تفتیشی افسر کے ذریعے اس انکوائری کو دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ حقائق معلوم ہو سکیں اور اس کے اصل حقائق معلوم ہوں کہ انسپکٹر صباء جعفری نے انکوائری صحیح طور پر کیوں نہ کی؟ کس طرح واضح ثبوتوں کے باوجود انکوائری بند کی تھی۔
ایف آئی اے انسپکٹر صباء جعفری کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان کے پاس ایک اور اسکول ٹیچر کی انکوائری بھی ہے جس میں تفتیش و انکوائری میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ صباء جعفری کے پاس محمکہ تعلیم سندھ کی خاتون اسکول ٹیچر زیب النساء کی انکوائری بھی ہے جس نے نہ صرف پرائیویٹ پاسپورٹ رکھا ہوا ہے بلکہ کئی سال تک مسلسل رخصت لئے بغیر بیرون ملک دورے کیے۔ صباء قادر بخش رند اور ایک پولیس افسر کی رقم بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام ہے اس کی انکوائری بھی آگے نہ بڑھ سکی۔