تحریر: مرزا رفاقت محمود
غزہ، ایک چھوٹا سا محصور علاقہ، اس وقت جدید تاریخ کے بدترین انسانی المیوں میں سے ایک کا گواہ بن چکا ہے۔ اسرائیلی ریاست، جسے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے، روزانہ کی بنیاد پر نہتے فلسطینیوں، عورتوں، بچوں اور بزرگوں پر بمباری کر رہی ہے۔ ہسپتال، سکول، عبادت گاہیں اور پناہ گاہیں. کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ ملبے کے نیچے دبی انسانیت سسک رہی ہے، لیکن اسلامی دنیا کی قیادت مجرمانہ خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔
اسرائیلی حملوں کی نوعیت محض عسکری نہیں، یہ ایک واضح نسل کشی (جینوسائڈ) ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشنز، اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے تحت اسرائیل کے یہ اقدامات کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔ لیکن مغربی طاقتیں نہ صرف خاموش ہیں بلکہ مسلسل اسرائیل کو اسلحہ، سفارتی کور اور میڈیا پر اثرورسوخ کے ذریعے سپورٹ کر رہی ہیں۔
ادھر اسلامی دنیا کا حال اور بھی قابلِ افسوس ہے۔ جن ممالک کو مسلمانوں کا قبلہ اول عزیز ہونا چاہیے تھا، وہ اسرائیل سے خفیہ تجارتی اور سیکیورٹی معاہدوں میں مصروف ہیں۔ عرب لیگ سے لے کر او آئی سی تک، ہر فورم یا تو مصلحت کا شکار ہے یا پھر مغرب کی خوشنودی کی خاطر اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ چکا ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، قطر، مصر، اردن اور دیگر مسلم ریاستیں۔ سب کے پاس سفارتی اثر و رسوخ، مالی وسائل اور عالمی فورمز تک رسائی موجود ہے۔ مگر نہ کوئی بائیکاٹ کی کال دے رہا ہے، نہ کوئی مشترکہ قرارداد، اور نہ ہی کوئی ٹھوس عملی قدم سامنے آ رہا ہے۔ صرف رسمی بیانات، مذمتی ٹویٹس اور جذباتی تقاریر سے آگے کچھ نہیں۔
یہ رویہ صرف منافقت نہیں بلکہ بے حسی کی انتہا ہے۔ جب امت مسلمہ کے بچے، عورتیں اور جوان مارے جا رہے ہوں اور ان کی چیخیں عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچ رہی ہوں، تب خاموش رہنا صرف بزدلی نہیں بلکہ جرم میں شراکت کے مترادف ہے۔
آج اگر مسلم دنیا نے اس مظلوم قوم کی خاطر کھڑا نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو یاد رکھیں، کل کو ظلم کی یہ لہر ان کی دہلیز تک بھی آ سکتی ہے۔ اسرائیل کے مظالم کو روکنے کے لیے اگر آج متحد ہو کر آواز نہ اٹھائی گئی تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ یہ وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنے داخلی اختلافات کو پسِ پشت ڈالے، ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو اور واضح، ٹھوس اور اجتماعی حکمت عملی اپنائے۔
فلسطین کی آزادی اب صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری امت مسلمہ کا فرض ہے۔ اگر ہم نے آج بھی خاموشی اختیار کیے رکھی، تو کل ہماری اپنی خاموشی ہمارے وجود کی قیمت بن سکتی ہے۔