تحریر: محمد سہیل مظہر
جب یہ تصویر میں نے اپنے چار دوستوں جن میں سے تین کمپیوٹر سائنس کے طالب علم اور چوتھا اسی فیلڈ میں سینئر پروگرامر کے طور پہ کام کر رہا ہے، کو دیکھائی اور پوچھا کہ پہچانو یہ کون ہیں تو سن گلاسز لگائے شخص کو پہچانتے ہوئے تینوں طالب علم یک زبان بولے ‘بادشاہ’ اور دوسری بھی اسی کی ہی بتائی۔ جبکہ پروگرامر نے دوسری فوٹو کو اے آئی کی خدمات حاصل کر کے بادشاہ کی ہم شکل بنائی گئی بتایا۔
پہلی فوٹو بادشاہ کی ہی ہے اور ان کا جواب درست تھا۔ دوسری تصویر میں کون ہے یہ آپ کو آگے چل کے بتاتا ہوں لیکن پہلے اس بادشاہ کا مختصر سا تعارف کر لیں کہ آخر یہ کس ملک کا بادشاہ ہے۔
سینتیس سالہ ادتیا پرتیک سنگھ سِسودیا کسی ملک کے بادشاہ نہیں بلکہ انڈین گلوکار، رَیپر ، فلم۔پروڈیوسر اور کاروباری شخصیت ہیں۔ اسٹیج پر آئے تو اپنا نام بادشاہ رکھ لیا جوکہ لکھنے اور بولنے میں تو ادتیا پرتیک سنگھ سِسودیا سے بہت چھوٹا ہے مگر ہے بہت بڑا۔ گلوکاری میں شہرت کی وجہ سے دنیا اب انہیں بادشاہ کے نام سے ہی جانتی ہے۔
دوسری تصویر ہرگز مصنوعی ذہانت کی ایجاد نہیں بلکہ میری ذہنی اختراع نے ایک حقیقی عراقی شخص کی شکل کو بادشاہ سے ملایا ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس کا پیشہ بھی آواز کے متعلق ہے یعنی اشکال کے بعد صلاحیتوں کی بھی مماثلت ہے۔
محمود إسيري کا تعلق عراق سے ہے۔ عربی میں منقبتیں، نوحے و اسلامی ترانے پڑھتے ہیں۔ ان صاحبان میں یہاں اختلاف ہے کہ ایک طرف گانے گانے والا ہے تو دوسری جانب نوحے، اسلامی ترانے اور منقبتیں پڑھنے والا۔
خیر یہ مماثلتیں اور اختلافات اپنی جگہ مگر ہم یہاں آرٹیفشل انٹیلیجنس کو ذکر کریں گے۔ مصنوعی ذہانت جہاں بہت سی مزید آسانیاں لے کر آئے گی وہیں اس سے پیچیدگیاں اور الجھنیں بھی پیدا ہوں گی۔ یعنی ایک ہی انسان کی بہت سی ہم شکل سامنے آ جانے کا خدشہ۔
جیسا کہ فوٹو میں دیکھائے گگئے دونوں الگ الگ حقیقی انسان ہیں، تو اگر ان دونوں کی اے آئی کی مدد سے مزید عکاسی تصاویر یا متحرک فوٹوز بنائی گئیں تو ایک ہی ملتی جلتی شکل کے چار انسان سامنے آجائیں گے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے اس معاملے میں مشکل تب کھڑی ہوگی جب کہیں سیکیورٹی ایجنسیز کو دہشت گردوں کو پکڑنے، مجرمان کی تلاش یا مطلوبہ افراد کے خاکے بنانے ہوں گے۔ اگر آپ کے ذہن میں اس کے بر عکس دلائل ہوں تو ضرور آگاہ کیجئے گا۔