تحریر: نوید کمال
ریاست جموں و کشمیر ایک دنیا کے بڑے تنازعات میں ایک تنازعہ ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ جسے کبھی حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
میرے آباء و اجداد نے مقبوضہ جموں سے ہجرت کی اور سیالکوٹ آ کر بس گئے، مقبوضہ جموں وکشمیر سے ہجرت کرنے والا ہر خاندان یہ سمجھتا تھا کہ یہ ایک ایسا تنازعہ جو حل ہوگا اور ہم لوٹ کر اپنے جموں واپس جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے نانا چوہدری رشید احمد اور دادا چوہدری احمد دین بے پاکستان میں جموں کی اراضی کے متبادل کے طور پر کلیم لینے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ میں نے بچپن میں اپنے دادا چوہدری احمد دین سے کئی بار یہ سنا کہ ‘ہم ایک دن لوٹ کر واپس کشمیر جائیں گے’۔ ہجرت کے کئی سال بعد تک دادا یہ سمجھتے رہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بعد وہ دوبارہ اپنے دیس اپنے گھروں میں جا بسیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ یہ آرزو دل میں لئے دادا 1996 میں سیالکوٹ کے جموں سے متصل ایک قبرستان میں دفن ہوگئے۔ سیالکوٹ کے بجوات سیکٹر کے جس قبرستان میں انہیں سپرد خاک کیا گیا وہاں سے جموں کی زمین بمشکل دو کلو میٹر ہے ڈسٹرکٹ جموں کی تحصیل نواں شہر میں دو سو ایکڑ اعلی زرخیز اراضی کے مالک چوہدری احمد دین 49 سال تک سیالکوٹ رہے۔ اس عرصہ میں وہ ہر روز اپنے شہر کو یاد کرتے سیالکوٹ کے بجوات سیکٹر سے جموں شہر کی لائٹیں دیکھتے رہے، وہ فوجی تھے 65 اور71 کی جنگیں لڑیں، انہیں امید تھی کہ فوج ایک دن مجاہدین کی مدد سے کشمیر آذاد کرالے گی۔ انہیں منوں مٹی کے نیچے گئے چوبیس سال ہوگئے آج زندہ ہوتے تو مایوس ہوتے کشمیری پاکستان کے ساتھ محبت کے باوجود مایوس ہی تو ہیں جاگتی آنکھوں سے جموں واپس جانے کا خواب دیکھتے چوہدری احمد دین دوبارہ کبھی جموں دیکھ نہ سکے جموں دیکھنے کی خواہش ہماری وراثت بن چکی ہے جو نسل در نسل منتقل ہورہی ہے۔
دادا کے بعد میرے تایا چوہدری عبدالغنی کے دل میں یہ خواہش لیے اس دنیا سے چلے گئے اور وہ بھی کبھی جنت نظیر وادیٔ کشمیر کو دوبارہ نہ دیکھ سکے۔ اب میرے والد اپنی سر زمین کو صرف ایک بار صرف ایک بار دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن بے بس ہیں میرے نانا بھارتی ٹی وی دور درشن پر کبھی کبھار جب جموں سے بہنے والے دریائے توی دیکھتے تو میرے نانا کی آنکھیں بھیگ جایا کرتی تھیں۔ نانا ابو بھی وادی اور جموں سے محبت کا ورثہ تیسری نسل کو منتقل کرکے 2015 میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ وہ جموں سے دیوانہ وار پیار کرتے تھے اور اپنے گھر گائوں زمینوں کو یاد کرتے رہتے۔ بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں میں ننکانہ صاحب جاکر جموں کے دوستوں کو تلاش کرتے رہتے کئی سال بعد انہں کامیابی ملی اور جموں کے رمتا سنگھ سے ان کی ملاقات ہوئی یہ رمتا سنگھ کو بہت عزیز رکھتے۔ اس کے ننکانہ صاحب میں قیام کے دوران اس کے ساتھ وقت گزارتے، تحفے تحائف دیتے اس سے جموں کی باتیں کرتے، جموں کی گلیوں محلوں کا پوچھتے یہ پاسپورٹ جیب میں ڈال کر بھارتی قونصل خانے کے چکر لگاتے لیکن بھارت نے اسی سالہ شخص کو ایک نظر جنم بھومی دیکھنے کے لیئے ویزا نہیں دیا۔ مجھ سے جموں کی باتیں کرنا ان کا پسندیدہ موضوع ہوتا تھا کبھی آسماں کی طرف دیکھ کر بڑے بجھے سے لہجے میں کہتے میں ابھی یہاں سے پیدل چلوں تو شام تک گھر پہنچ جائوں گا۔ گھر سے مراد ان کی جموں میں رہائش گاہ ہوتی تھی وہ بتاتے کہ ہمارے گھر کے پیچھے باغیچہ ہے جہاں امی (نانا کی والدہ) ہانڈی میں زیورات اور روپیہ پیسہ دفن کر آئیں اس یقین کے ساتھ، جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہونا ہے۔ ہمیں واپس آنا ہے نانا کی والدہ مجھے دھندلی دھندلی یاد ہیں گوری چٹی نفیس خاتون تھیں ہمیشہ سفید کاٹن کے کپڑے زیب تن کیئے رکھتیں اونچا سنتی اور اونچا بولتی تھیں۔ انہوں اس وقت حج کیے جب بحری جہازوں کے زریعے حج کا سفر ہوا کرتا تھا، جموں کو وہ ساڈا جموں کہا کرتی تھیں، وہ جو جموں کو نقشہ کھینچتی سننے والوں کو کوہ کاف کا گماں ہوتا جموں کی فضائیں پھولوں سے مہکتی رہتیں معطر ٹھنڈی ہوائیں ایک سحر طاری کیئے رکھتیں۔ بے بے کا ہاتھ جموں کو زکر آتے ہیں تسبیح پر رک جاتا آنکھیں نم ہوجاتیں۔
پانچ اگست کو پاکستان حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا سال مکمل ہونے پر حکومت نے پانچ اگست کو یوم استحصال قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ‘غاصبانہ انڈین قبضے’ کی مذمت کی جا سکے۔ ہم اس سے قبل پانچ فروری کا دن مناتے ہیں کشمیر ڈے کو چھٹی کرتے ہیں اور ریلی نکالتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں تقریریں ہوتی ہیں اس میں ایک اضافہ پانچ اگست کا بھی سہی۔
حکومت پاکستان کے مطابق پانچ اگست کو بھارت کےخلاف ایک منٹ کی خاموشی اختیارکی جائے گی، جدید دنیا کےعیسائی، خاموشی عموماً مارے جانے والوں کے لئے اختیارکرتے ہیں۔ توکیا اجتماعی خاموشی کا مطلب یہی لیا جائے کہ حکومتی کے کاغذات میں کشمیریوں کو مدفون کیا جا چکا ہے؟ بارڈر کے دونوں طرف جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی چوتھی نسل جوان ہوکر بڑھاپے کی طرف گامزن ہے۔ ہم نے کوئی سیاسی، سفارتی یا عسکری کامیابی حاصل کی ہو۔ 75 سالوں میں کشمیریوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ کشمیر کی آزادی کا فیصلہ ان کو کرنا ہے جو وہ کرچکے ہیں۔ اب وہ روزانہ اپنے خون سے اس کا اعلان کرتے ہیں ہندوستان جان چکا کہ کشمیری ان کے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کرچکے ہیں اب اس فیصلے کا عالمی فورم پر اعلان ہونا باقی ہے انشاءاللہ وہ دن دور نہیں۔