پاکستانی سیٹلائٹ پر اسٹوری ٹیلرز کی مجبوری

0
47

تحریر: نصرت امین

چند گھنٹوں پہلے چین کی مدد سے پاکستانی سیٹلائٹ کی خلا میں روانگی تک، سوشل میڈیا پر بہت باتیں ہوتی رہیں۔ تقریباً ہر روز اس معاملے میں کسی نہ کسی ‘بڑی’ پیش رفت پر مواد مل ہی جاتا تھا۔ حال ہی میں چند کلوگرام وزنی مکمل طور پر تیار سیٹلائیٹ کی ایک خوبصورت تصویر کے ساتھ پوسٹ کئے گئے ٹیکسٹس میں یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ جلد اس سیٹلائیٹ کے خلائی سفر پر روانہ ہونے کا اعلان کیا جانے والا ہے۔

پاکستانی اسٹوری ٹیلرز کی مہارت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اِن کی تخلیقی صلاحتوں کی سطح، قصہ گوئی، داستان گوئی یا کہانی سنانے کے فن میں درکار انتہائی سطحوں سے بھی بہت اوپر ہوتی ہے۔ بس کبھی کبھی جوشِ خطابت و تحریر اور بغض معاویہ کے ملے جُلے جذبات کے تحت، وہ اپنی سنائی یا گڑھی ہوئی داستان میں کوئی ایسا پہلو بیان کرنا بھول جاتے ہیں کہ ایک معمولی ذہانت رکھنے والے دماغ میں بھی چند بنیادی سوالات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر برسوں پہلے سرد جنگ کے دور میں سرکاری ذرائع نے آج کل کے اسٹوری ٹیلرز کے بزرگوں کے ذریعے قوم تک ‘اطلاع’ پہنچائی کہ جلال آباد پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ چند روز بعد شہر کے ایک محدود سماجی حلقے سے تعلق رکھنے والے کچھ سمجھدار لوگوں نے سوال اُٹھایا کہ جلال آباد کے مرکز میں لہراتے ہوئے پاکستانی پرچم سمیت اس تاریخی فتح کی تصاویر، اور جلال آباد کے نئے پاکستانی گورنر / منتظم اور کورکمانڈر وغیرہ کے نام اور تصاویر اب تک کیوں نہیں شائع کی گئیں؟۔

چند برسوں بعد معلوم ہوا کہ میخائل گوربا چوف اور رونالڈ ریگن کے درمیان سرد جنگ کے خاتمے کے لئے ہونے والی فیصلہ کُن ملاقات؛ اور گوربا چوف کی متعارف کردہ اصلاحات سے قبل، پاکستان تو کیا امریکہ کا باپ بھی سویت افواج کی موجودگی میں، جلال آباد فتح  کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ بہرحال سویت یونین کے زوال کے برسوں بعد آج بھی، جلال آباد کی فتح کم از کم پاکستانیوں کے لئے ایک خواب ہی ہے۔

یوں مجھے اُن چند سمجھدار لوگوں کی بدولت اِن اسٹوری ٹیلرز کے آباواجداد کی پھیلائی ہوئی ‘اطلاعات’ کو کسی حد تک جانچنے کا ڈھنگ آگیا تھا، اور بعد ازاں نیل آرم اسٹرانگ اور انطونیو انوکی کے اسلام قبول کرنے، کارگل، پٹھان کوٹ اور گورداسپور فتح ہونے، ہر سال امریکی و برطانوی یونیورسٹیز میں پاکستانی طلبا کے ٹاپ کرنے، ملک میں دنیا کے اعلی ترین جاسوسی نظام کی تنصیب، ملک میں دنیا کے موثر ترین نہری نظام کی موجودگی، کراچی میں ایشیا کی بلند ترین عمارتوں کی تعمیر، ایشیا کے سب سے بڑے شاپنگ پلازہ کے افتتاح اور آئے دن ہندوستانی جاسوسوں کے پکڑے جانے کی ‘اطلاعات’ کو سُنتے ہی، ان کی بیمار صحت کا اندازہ ہوجایا کرتا تھا اور اب اس معاملے میں کئی برسوں پر محیط کافی آزمودہ مشقیں ہوچکی ہے۔

دوسری جانب یہ شکر بھی اداکرتا ہوں کہ اس طویل اور حساس تجربات کے سبب میرا ذہن اِنہی معاملات میں موصول ہونے والی درست خبروں کے معاملے میں ‘پریجوڈائسز’ اور ‘بائسز’ کا شکار بھی نہیں ہوا! یہ خدا کا خاص کرم رہا ہے، اور خدا وند قدوس یہ کرم چُن کر چند ہی لوگوں پر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کلبھوشن یادو کی گرفتاری کی پہلی مختصر اطلاع پر ہی احساس ہوگیا تھا کہ یہ خبر درست ہوسکتی ہے۔ اور یہی ہوا، پاکستان میں اگر کوئی ہندوستانی ایجنٹ کبھی پکڑا گیا ہے تو میری نظر میں وہ کلبھوشن یادَو ہے۔ برسوں سے گرفتار چند اور بھارتی جاسوسوں کی اطلاعات موصول ہونے کے لمحات مجھے یاد نہیں، البتہ برسوں بعد ان کی رہائی کے قصے یاد ہیں، کیوں کہ ان پر تو ہم نے خوب ‘صحافت’ کی تھی۔ اس معاملے میں صحافتی پیشے میں درست لوگوں کی رہ نمائی بھی کارفرما رہی ہے۔

لہذا چین کی ٹنوں وزنی خلائی شٹل کے روانہ ہونے کے چند گھنٹوں بعد، اب یہ عرض ہے کہ پاکستانی سیٹلائٹ پر اسٹوری ٹیلرز کرنے والوں کی مسلسل اور اس خوبصورت قصہ گوئی میں ایک بڑی کمی مستقل محسوس ہوتی رہی؛ وہ یہ کہ پاکستان نے اپنی سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے لئے دوست ملک چین سے درخواست کی تھی: کیوں کہ پاکستان کے پاس سیٹلائٹ تو ہے، لیکن اس کو خلا میں لے جانے والا راکٹ اور راکٹ کو خلا کی جانب دھکیلنے والا لانچر دستیاب نہیں!۔

اس سلسلے میں چین سے درخواست کی گئی درخواست سے متعلق مختصر خبریں صرف مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے ہی عوام تک پہنچی ہیں۔ جب کہ جلال آباد اور کارگل پر قبضے سے لے کر کراچی میں ایشیا کی سب اونچی عمارت کی تعمیر کی ‘اطلاعات’ پھیلانے والے عناصر کے سنائے ہوئے قصوں میں، چینی راکٹ، چینی لانچر اور اس سلسلے میں چین سے کی گئی عاجزانہ و مودبانہ درخواست کا کہیں ذکر نہیں تھا! شاید اس لئے کہ ہندوستان نے چاند پر اپنی شٹل، اپنے ہی راکٹ اور اپنے ہی لانچر سے بھیجی تھی، اور اپنی ہی سر زمین سے بھیجی تھی۔ لہذا ہمارے ‘قصہ گو’ شاید شرمندگی کے سبب مکمل داستان سنانے سے کترا تے رہے۔

اگر اکیسویں صدی کی چوتھائی قریب ہونے پر بھی، ایک بار پھر چینیوں سے اپنی سیٹلائٹ کو مفت خلا میں روانہ کرنے کی مودبانہ و عاجزانہ درخواست کرنے کا پہلو، ان پاکستانی اسٹوری ٹیلرز کے لئے باعث شرمندگی ہے، تو میں یقیناً اُن کی کمزوری اور مجبوری سمجھ سکتا ہوں!۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں