تحریر: نثار نندوانی
لکھاری اس وقت تک ادھورے ہیں جب تک انہیں پڑھنے والے قاری موجود نہیں، ہر شخص چاہے وہ لکھاری ہو یا چاہے وہ قاری ہو، اسے کچھ بننے کیلئے، زندگی کے سفر کو سہل بنانے کیلئے کتاب کی سواری کرنا ضروری ہے۔ ورنہ نہ تو آپ لکھاری بن سکتے ہیں اور نا ہی قاری بن سکتے ہیں۔
ہر چیز فنا ہے مگر یاد رکھیں ادیب کبھی نہیں مرتا اگر مر بھی جائے تو اس کی باقیات مختلف گھروں کے مختلف طاقوں پر ملتی ہیں۔ صرف ایک لکھاری ایسا ہوتا ہے جو اپنے لئے ڈائری لکھتا ہے اور اس ڈائری کا قاری بھی وہ خود ہی ہوتا ہے۔
کچھ لکھاری ایسے ہوتے ہیں جو خون میں لتھڑے زخموں کو بڑے ہی افسردہ قلمی لہجے میں قرطاس پر منتقل کرتے ہیں اور سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ نہیں کرتے۔
کچھ لکھاری خود اپنے لئے نہیں لکھتے مگر دوسروں کو لکھ کر دیتے ہیں ایسے لکھاری قوم یا ملک کو ملاوٹ شدہ تخلیق کار مہیا کرتے ہیں جن کی کتابیں پھر فٹ پاتھوں پر ملتی ہیں۔
کچھ لکھاری جنس پرست ہوتے ہیں وہ اپنی جاننے والی خواتین کیلئے لکھتے ہیں اور خواتین کی خوب پذیرائی کرتے ہیں۔ یہ لکھاری بھی معاشرے کے ناسور ہوتے ہیں۔
کچھ لکھاری بیورو کریٹ، اسٹیبلشمنٹ یا سیاست دانوں کیلئے لکھتے ہیں اور ان کی فائلیں اُٹھائے ان کے پیچھے کسی بوڑھے برگد کے درخت کی طرح چھاؤں مہیا کرتے ہیں ایسے لکھاری کاپی پیسٹ کے ماہر ہوتے ہیں۔
میری نظر میں ہر وہ شخص لکھاری ہے جو اپنی سوچ، خیالات اور لفظوں کو جملوں کا پیراہن پہنا کر قاری کے سامنے دیدہ زیب و دلکش بنا کر پیش کرتا ہے۔
میں نے کبھی بھی لکھاریوں کی درجہ بندی نہیں کی کوئی بھی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا۔
مجھے سوشل میڈیا پر وہ لکھنے والے بہت پسند ہیں جو چھوٹے چھوٹے جملوں میں اپنا ماضی الضمیر بیان کرتے ہیں، ان میں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی غلطیوں کی تصحیح کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ورنہ کتابیں لکھنے والوں کا املا، غلطیاں درست کرنے کیلئے پروف ریڈر موجود ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے لکھاری تن تنہا یہ کام سر انجام دیتے ہیں اور اپنے آپ پر انحصار کرتے ہوئے شاندار لکھتے ہیں، ایک اور بات بھی بتاتا چلوں کہ سوشل میڈیا کے لکھاریوں کو ہر وقت کمنٹ کی صورت میں تنقید کا سامنا رہتا ہے گو کہ وہ تنقید تعمیری نہیں ہوتی بلکہ شغلی ہوتی ہے، لوگ تصحیح کی بجائے تضحیک کرتے ہیں لیکن اس کے نظریات کو سمجھنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا پر لکھنے والے فی سبیل اللہ لکھتے ہیں اگر انہیں پذیرائی نہیں دے سکتے تو ان کی تضحیک کرنے کا بھی آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کے لکھاری کو چاہے وہ کسی بھی زبان میں لکھتا ہے اسے اپنی ہی لکھی زبان کے قارئین مل جاتے ہیں اور اسے اپنا مطمع نظر پہنچانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔
ہاں درجہ بندی نا کرنے کے باوجود میں اس لکھاری کو سلام پیش کرتا ہوں جو معاشرے کے مسائل پر اپنی سوچ اور توانائی استعمال کرتا ہے گو کہ اسے اتنی پذیرائی نہیں ملتی کیونکہ کہ اس کے الفاظوں میں سچ کا زہر شامل ہوتا ہے۔
اچھے لکھاری لفظوں سے خوشبو ڈھونڈ کر نکالتے ہیں مگر پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی یقینی ہوتے ہیں وہ کانٹے اصل میں سچ کی باریک سوئیاں ہوتی ہیں جو قاری کو چھبتی ہیں ان میں سے کچھ شرف قبولیت بخش دیتے ہیں کچھ انا پرست اپنی انا کی قبر میں دفن رہتے ہیں۔
آج ان لکھاریوں کا عالمی دن ہے جو جو سمندر کی تہہ میں چھپے موتی نکالتے ہیں، آسمان کی منشاء بیان کرتے ہیں، جلتی شمعون کے درد پر آہ و زاری کرتے ہیں، خاموشیوں کو زبان دیتے ہیں، کسی دوسرے کے جذبات کو ماپنے کا ہنر جانتے ہیں، سر بستہ رازوں کو بے نقاب کرتے ہیں، ایسے ہی لکھاری قاری کے دل و دماغ پر قلم کے وار کرتے ہیں اور قاری خود اپنا سر نگوں کر دیتا ہے۔