تحریر: محمد شعیب یار خان
ایٹم بم گرنے کے بعد اس کی تباہ کاریایوں کے اثرات نہ ختم ہونے والے ہوتے ہیں اول تو متاثرہ جگہ پر کوئی زندہ نہیں بچتا اگر لامحالہ بچ بھی جائے تو کئی نسلوں تک انسان اس کےزہریلے اثرات کے زیر اثر زندگی گزارتا ہے یہ طریقہ بہت ہی جان لیوا ہونے کے ساتھ ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے مگر اب دنیا نے ترقی کرلی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی آبادی کم کرنے سے ختم کرنے تک کےانتہائی سہل اور قابل معافی طریقے وجود میں آچکے ہیں جس سے غریب بھی مر جائے الزام بھی نہ آئے ان ہی طریقوں میں سب سے زیادہ آزمودہ، اور مقبول طریقہ ہلاکت انسانی، ہوشربا مہنگائی بن چکا ہے اب کوئی بھی مہلک ہتھار اتنا کارگر نہیں ہوسکتا جتنا مہنگائی کا وار ہوچکا ہے۔ جس میں مارنے والا بری ذمہ بھی ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ مرتے ہوئے شکار کو دیکھنے کی لذت سے بھی خوب محظوظ ہوتا ہے۔ الزام بھی کوئی نہیں آتا وجوہات کا انبار بتا کر دنیا میں مظلوم بن کر ہمدردیاں بھی سمیٹ لی جاتی ہیں۔ اس مہلک ہتھیار مہنگائی کا شکار ترقی پذیر ممالک میں شامل مملکت پاکستان کے غریب عوام بھی ہیں جنہیں ہر آنی والی نئی جمہوری حکومت اپنی مجبوریاں پریشانیاں، بے بسی، پچھلی حکومتوں کی نا اہلیاں اور مظالم بتا بتا کر غریب لاچار بے۔ حس و بے بس عوام کا خون نچوڑتی ہے لیکن کمال یہ ہے کہ حکومتی وزراء سے مشیران تک زبردست مراعتوں، سہولتوں کے ساتھ شاندار طرز زندگی گزارتے دکھائی دیتے ہیں ان کے روشن چہروں پر بیش بہا مہنگائی کا رتی برابر اثر دکھائی نہیں دیتا۔
یہ چند حکمرانوں کا ٹولہ جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، کروڑوں پاکستانیوں پر حاوی ہیں جو اقتدار میں آکر عوام کو مشکلات، قرضوں، ڈیفالٹ کے خوف میں مبتلا کرکے دھڑا دھڑ پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ کرکے غریب کو آہستہ آہستہ ان کو قبروں میں پہنچا دیتا ہے یہ گزشتہ کئی دھائیوں سے ہورہا ہے، صرف عوام ہی مرتی ہیں کبھی خود کشی سے کبھی پریشانیوں کا شکار ہوکر نوکریاں نہ ملنے بے روزگاری کے سبب موذی بیماریوں کا شکار مہنگی دواؤں کی عدم دستیابی سے لپٹرول، بجلی، گیس کی قیمتیں گذشتہ پانچ سالوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ کبھی کبھار آٹے میں نمک کے مترادف قیمتیں کم بھی کی جاتیں ہیں پھر فوری اضافہ کردیا جاتا ہے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ ذخیرہ اندوزوں ناجائز منافع خوروں کے من مانے اضافے ریاستی رٹ کا منہ چڑاتے ہیں۔ جبکہ گزشتہ کئی سالوں میں طوفانی مہنگائی کے باوجود عام عوام کی نہ تنخواہوں میں اضافہ ہوا نہ حکومتی ریلیف ملا نہ روزگار کی فراہمی آسان ہوئیں مگر ان سب کے باوجود مہنگائی میں کئی سو گنا اضافہ اجتمائی قتل عام نہیں تو اور کیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ہر پاکستانی لاکھوں روپے کا مقروض ہوچکا ہے تو اگر ایسا ہے تو پھر حصہ بھی تمام پاکستانیوں کو ڈالنا چاہئیے خاص کر سرکار میں موجود برسراقتدار اشرافیہ کو بھی۔ لیکن مجال ہے کہ کبھی کوئی بڑا سیاستدان یا حکمران بھوک افلاس یا غربت کا شکار ہوکر مرا ہو۔انہیں کیا معلوم ہے بیس بیس روپے پٹرول میں اضافے کا اثر صرف اس پر ہی پڑتا ہے جو ایک مہینے بجلی، گیس کا بل بحالت مجبوری نہ جمع کرسکے تو اس کے کنکشن فوری کاٹ کر اس کی سفید پوشی کو سب کے سامنے تار تار کردیا جاتا ہے، وہ پورہ محنت کے باوجود اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی پوری نہ ہونے_کے سبب آہستگی سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے یہ وہی عام آدمی ہے جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی کمائی کا بڑا حصہ ٹیکس کی مد میں حکومت کے پلڑے میں مجبوراً یا ضرورتاً بھرپور طریقے سے ڈالتا ہے ،یہ وہ غریب ووٹر ہوتا ہے جو اچھے دنوں کی امید میں ووٹ کا حق استعمال کرتا ہے کہ شاید اچھے دن آئیں گے لیکن بدلے میں اس غریب کے لئے بیش بہا براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کی بھرمار اور اشیائے خورونوش اور تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
یہ سلسلہ گزشتہ کئی دھائیوں سے چلتا ہی آرہا ہے اورچلتا رہے گا۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے کہ تئیس کروڑ عوام سیاسی پارٹیاں بناکر اسمبلیوں کا رخ کریں تاکہ وہ بھی ہر آسائش کا مزہ لے سکیں جو ممکن نہیں تو پھر اپنے موجودہ اورگذشتہ تمام حکمرانوں کا بغیر کسی تفریق کے احتساب کا مطالبہ کیا جانا چاہئیے اور پوچھیں کہ یہ جو عوام آج اس مہنگائی کے عذاب کو جھیل رہی ہے، آئی ایم ایف سمیت پوری دنیا کی مقروض ہے مزید ہوتی جارہی ہے اس کا قصور وار کون ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود، اپنی کمائی کا تقریبا نوے فیصد حصہ حکومتی ٹیکسس کی نذرکرنے کے باوجود، پینے پانی کی قلت، بجلی، گیس، پٹرول، کھانے پینے کی روز مرہ کی اشیا کے سیکنڑوں گنا مہنگے ہونے کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سے محرومی کے باوجود بھی امیر آج بھی امیر ترین اور غریب مزید غریب کیوں ہورہا ہے۔ حکومتوں کو قرض یا امداد کی مد میں جو پیسہ ملتا ہے کہاں جاتا ہے کیسے استعمال ہوتا ہے۔ کون کون اور کیوں مستفید ہورہا ہے؟ کیوں عوام پر خرچ نہیں ہوتا، کب تک ایسا ہوگا۔ اب عوام کو ایٹم بم بننا پڑے گا جو استعمال ہویا نہ ہو مگر اس کے خوف سے تمام قصوروار راہ راست پر آئیں اور غریب چین سے جی سکے سکون سے مر سکے۔
کب تک ایٹم بم گرنے کے بعد اس کی تباہ کاریوں کے اثرات نہ ختم ہونے والے ہوتے ہیں اول تو متاثرہ جگہ پر کوئی زندہ نہیں بچتا، اگر لامحالہ بچ بھی جائے تو کئی نسلوں تک انسان اس کے زہریلے اثرات کے زیر اثر زندگی گزارتا ہے یہ طریقہ بہت ہی جان لیوا ہونے کے ساتھ ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے مگر اب دنیا نے ترقی کرلی ہے اور ترقی پذیر ممالک کی آبادی کم کرنے سے ختم کرنے تک کے انتہائی سہل اور قابل معافی طریقے وجود میں آچکے ہیں۔ جس سے غریب بھی مر جائے الزام بھی نہ آئے ان ہی طریقوں میں سب سے زیادہ آزمودہ اور مقبول طریقہ ہلاکت انسانی، ہوشربا مہنگائی بن چکا ہے اب کوئی بھی مہلک ہتھار اتنا کارگر نہیں ہوسکتا جتنا مہنگائی کا وار ہوچکا ہے جس میں مارنے والا بری ذمہ بھی ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ مرتے ہوئے شکار کو دیکھنے کی لذت سے بھی خوب محظوظ ہوتا ہے۔ الزام بھی کوئی نہیں آتا وجوہات کا انبار بتا کر دنیا میں مظلوم بن کر ہمدردیاں بھی سمیٹ لی جاتی ہیں اس مہلک ہتھیار مہنگائی کا شکار ترقی پذیر ممالک میں شامل مملکت پاکستان کے غریب عوام بھی ہیں جنہیں ہر آنی والی نئی جمہوری حکومت اپنی مجبوریاں پریشانیاں، بے بسی، پچھلی حکومتوں کی نا اہلیاں اور مظالم بتا بتا کر غریب لاچار بے حس و بے بس عوام کا خون نچوڑتی ہے مگر کمال یہ ہے کہ حکومتی وزراء سے مشیران تک زبردست مراعتوں، سہولتوں کے ساتھ شاندار طرز زندگی گزارتے دکھائی دیتے ہیں ان کے روشن چہروں پر بیش بہا مہنگائی کا رتی برابر اثر دکھائی نہیں دیتا۔ یہ چند حکمرانوں کا ٹولہ جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، کروڑوں پاکستانیوں پر حاوی ہیں جو اقتدار میں آکر عوام کو مشکلات، قرضوں، ڈیفالٹ کے خوف میں مبتلا کرکے دھڑادھڑ پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ کرکے غریب کو آہستہ آہستہ ان کو قبروں میں پہنچا دیتا ہے یہ گزشتہ کئی دھائیوں سے ہورہا ہے صرف عوام ہی مرتی ہیں کبھی خود کشی سے کبھی پریشانیوں کا شکار ہوکر نوکریاں نہ ملنے بے روزگاری کے سبب موذی بیماریوں کا شکار مہنگی دواؤں کی عدم دستیابی سے۔
پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتیں گذشتہ پانچ سالوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوچکا ہے کبھی کبھار آٹے میں نمک کے مترادف قیمتیں کم بھی کی جاتیں ہیں پھر فوری اضافہ کردیا جاتا ہے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ ذخیرہ اندوزوں ناجائز منافع خوروں کے من مانے اضافے ریاستی رٹ کا منہ چڑاتے ہیں۔جبکہ گزشتہ کئی سالوں میں طوفانی مہنگائی کے باوجود عام عوام کی نہ تنخواہوں میں اضافہ ہوا نہ حکومتی ریلیف ملا نہ روزگار کی فراہمی آسان ہوئیں مگر ان سب کے باوجود مہنگائی میں کئی سو گنا اضافہ اجتمائی قتل عام نہیں تو اور کیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ہر پاکستانی لاکھوں روپے کا مقروض ہوچکا ہے تو اگر ایسا ہے تو پھر حصہ بھی تمام پاکستانیوں کو ڈالنا چاہئیے خاص کر سرکار میں موجود برسر اقتدار اشرافیہ کو بھی۔ مگر مجال ہے کہ کبھی کوئی بڑا سیاستدان یا حکمران بھوک افلاس یا غربت کا شکار ہوکر مرا ہو۔ انہیں کیا معلوم ہے بیس بیس روپے پٹرول میں اضافے کا اثر صرف اس پر ہی پڑتا ہے جو ایک مہینے بجلی، گیس کا بل بحالت مجبوری نہ جمع کرسکے تو اس کے کنکشن فوری کاٹ کر اس کی سفید پوشی کو سب کے سامنے تار تار کردیا جاتا ہے۔ وہ پورہ محنت کے باوجود اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی پوری نہ ہونے کے سبب آہستگی سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے یہ وہی عام آدمی ہے جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی کمائی کا بڑا حصہ ٹیکس کی مد میں حکومت کے پلڑے میں مجبوراً یا ضرورتاً بھرپور طریقے سے ڈالتا ہے یہ وہ غریب ووٹر ہوتا ہے جو اچھے دنوں کی امید میں ووٹ کا حق استعمال کرتا ہے کہ شاید اچھے دن آئیں گے مگر بدلے میں اس غریب کے لئے بیش بہا براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کی بھرمار اور اشیائے خورونوش اور تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
یہ سلسلہ گزشتہ کئی دھائیوں سے چلتا ہی آرہا ہے اورچلتا رہے گا۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے کہ تئیس کروڑ عوام سیاسی پارٹیاں بناکر اسمبلیوں کا رخ کریں تاکہ وہ بھی ہر آسائش کا مزہ لے سکیں جو ممکن نہیں تو پھر اپنے موجودہ اور گذشتہ تمام حکمرانوں کا بغیر کسی تفریق کے احتساب کا مطالبہ کیا جانا چاہئیے اور پوچھیں کہ یہ جو عوام آج اس مہنگائی کے عذاب کو جھیل رہی ہے۔ آئی ایم ایف سمیت پوری دنیا کی مقروض ہے مزید ہوتی جارہی ہے اس کا قصوروار کون ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود، اپنی کمائی کا تقریبا نوے فیصد حصہ حکومتی ٹیکسس کی نذرکرنے کے باوجود، پینے پانی کی قلت، بجلی، گیس، پٹرول، کھانے پینے کی روز مرہ کی اشیا کے سیکنڑوں گنا مہنگے ہونے کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سے محرومی کے باوجود بھی امیر آج بھی امیر ترین اور غریب مزید غریب کیوں ہورہا ہے۔ حکومتوں کو قرض یا امداد کی مد میں جو پیسہ ملتا ہے کہاں جاتا ہے کیسے استعمال ہوتا ہے کون کون اور کیوں مستفید ہورہا ہے؟ کیوں عوام پر خرچ نہیں ہوتا، کب تک ایسا ہوگا۔ اب عوام کو ایٹم بم بننا پڑے گا جو استعمال ہویا نہ ہو مگر اس کے خوف سے تمام قصور وار راہ راست پر آئیں اور غریب چین سے جی سکے سکون سے مر سکے۔
ہوتی نہیں جو قوم حق بات پے یکجا
اس قوم کا حاکم ہی فقط اس کی سزا ہے