میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں

0
30

تحریر: حمید سومرو

ہائے اتقاء ڈکیتی مزاحمت پر مکینکل انجنئیر اور گولڈ میڈلسٹ اتقاء کو قتل کردیا گیا، ایک اور نوجوان کے بیگناھ قتل دل ہلا دیتے والے واقعے پر دکھ اور افسوس کرنے سب پہنچیں گے۔ پر اس ماں کو تسلی کون دے سکتا ہے جس نے اپنے شہزادے کو دو سال پہلے دولہا بنایا تھا۔

اس بیوی کے دکھ کو کون سے پیمانے میں ناپ سکتے ہو جو دو سال پہلے دلہن بنی ابھی ان خوابوں کی تعبیرب ھی دیکھنی تھی اور وہ بیوہ بن گئی۔

مقتول کے بڑے بھائی عباد کے مطابق، ارتقا بچوں کی چیز لینے کل شام بیکری تک گیا تھا، واپس لوٹتے ہوئے ڈاکو پیچھے لگ گئے، گھر کے قریب ہی ملزمان نے واردات کی، ایک ملزم نے ارتقا کو گولیاں مارنے کے بعد تلاشی بھی لی، موبائل فون اور نقدی بھی لوٹی، موٹر سائیکل بھی چھین کرلے گئے۔

مقتول ارتقاء ہمدرد یونیورسٹی کا گولڈ میڈلسٹ تھا، نجی کمپنی میں بطور کیمیکل انجینئر ملازم تھا، ارتقا 8 بہن بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھا، شہر میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں روز کا معمول بن گیا ہے، ملکی معاشی حالات خراب ہے، ملک کا ٹیلنٹ باہر چلا جاتا ہے لیکن جو ملک کی خدمت کرتا ہے اسے ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے، ماں کو پتہ ہوتا تو کبھی باہر جانے نہ دیتی.

اتقاء تم میرے ملک اور اپنے گھر کے بہتر مستقبل کے لئے سوچتے تھے، شاید اسی کی سزا ملی تم بھی خود غرض امیروں کی اولادوں کی طرح گارڈ ساتھ لیکر کسی ویگو میں چلتے تو شاید تمہیں ٹارگٹ نہیں کیا جاتا، تمہیں پتہ نہیں تھا کہ کرمنلز کا سافٹ ٹارگٹ امیر لوگ نہیں بائیک پر سفر کرنے والے نوجوان اور وہ شریف لوگ ہوتے ہیں جن کی بائیک کا کبھی پنکچر ہوجائے توبنوانے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے، قسطوں پر موبائل لیکر باہر نکلتے ہیں تو لوٹ لئے جاتے ہیں، گھر پہنچتے ہیں تو کھانا نہیں ملتا گیس نہیں ملتی اوربجب تھکے ہارے تھوڑی دیر آرام کے لئے لیٹیں تو بجلی چلی جاتی ہے، اس شہر کے لوگوں کو (پوش علاقوں کے نہیں) آدھی رات پانی بھرنے کے لئے بھی اُٹھنا پڑتا ہے جاگنا پڑتا ہے، کیا تمہیں نہیں پتہ تم انسانوں کے جنگل سے بھی بدتر شہر کراچی میں رہتے ہو، کراچی جس سے سب نے نوچا ہے سب ڈھونگی زخموں پر مرہم رکھنے کا دعوع کرتے ہیں پر رکھتا کوئی نہیں۔

اس شہر کی عوام کی حفاظت پر مامور پولیس والے ہوں یا کوئی اور سب یہ سوچ کر ڈیوٹی پر جاتے ہیں کہ آج کس کو ٹارگٹ کرنا ہے کس کو پھنسانا ہے اور پیسے بٹورنے ہیں۔ حکومت قاتلوں کی گرفتاری کے دعوے کرے گی تعزیتیں ہونگی، شہری سندھ کے مینڈیٹ کے دعوے دار بڑے سیاسی بیانات داغیں گے پر نتیجہ کچھ نہیں نکلنا۔

ارتقی تمہارے بیگناہ خون پر فرشتے بھی روئے ہونگے پر ٹھنڈے کمروں میں بجٹ بنانے میں مصروف حکمرانوں نے سن کر صرف پی آر او کو نوٹس لینے اور تعزیتی بیان دینے کا کہا ہوگا۔
یہاں سب کمرشل ہوچکا ہے، سیاستدان ہوں سرکاری افسران ہوں، وہ سب ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، ایک طرف اتحادی حکومتوں میں مصلحتن بیٹھے ہوئے ہیں، تو دوسری جانب مخالفتیں بھی عروج پر دکھاتے ہیں اور راتوں کو ڈنرز پر ساتھ ہوتے ہیں۔

شہر کو محفوظ کب اور کون بنائے گا یہ سوال ایسا ہے جس پر جب سوچنا شروع کرتا ہوں تو بدنیتی نظر آتی ہے، سیف سٹی منصوبہ ہو یا کےفور سب سیاست اور بدنیتی کی نظر ہوگئے ہیں۔

خدارا اتقاء کے غم کو محسوس کرو، مائوں کی گود کو مزید اجڑنے سے بچائو اس شہر کے نوجوانوں کی زندگیوں کو محفوظ بنائو ورنہ جو لاوا پکتا ہوا دیکھ رہا ہوں، وہ جب پھٹ پڑا تونہ صرف حکمران پر تمام سیاسی جماعتوں کے سیاستدان ملک سے بھاگنے پر مجبور ہونگے۔ کراچی کے نوجوانوں کا خون کب تک بہے گا؟۔

اتقاء معین ہمدرد یونیورسٹی سے میکینکل انجینئرنگ کے گولڈ میڈلسٹ اور آئی بی اے سے ایم بی اے کر رہے تھے اور گزشتہ روز 4 بجے گلشن بلاک 7 سے بائک، پیسے، موبائل چھین کر گولی مار کر شہید کردیا۔ مقتول اتقاء جامعہ ہمدرد کے لیکچرر عباد معین کے چھوٹے بھائی اور رجسٹرار جامعہ ہمدرد کلیم غیاث کے قریبی رشتہ دار تھے۔ نوجوان کی دو سال قبل ہی شادی ہوئی تھی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں