تحریر : شکیل راجپوت
کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ “ہاتھ سے لکھے نسخے چھاپہ خانہ کا مقابلہ کیسے کرتے”! ایسا کہنے، لکھنے اور سمجھانے والے تاریخ سے نابلد ہی نہیں غوروفکر سے بھی عاری و بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ سن 600 صدی عیسوی میں جھوٹے مدعیان نبوت مسلیمہ کزاب و اسود عنسی سے معرکہ کے دوران سات سو حفاظ کرام نے شہادت پائی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضہ نے پتھر، کپڑوں کے مختلف ٹکڑوں، لکڑیوں اور پتوں پر لکھے قرآن مجید فرقان حمید کو پہلی بار کتابی شکل دیتے ہوئے تاریخ میں پہلی بار پہلی قرآنی کتاب کی تدوین کی، اس وقت چھاپہ خانہ (پرنٹنگ پریس) تو دور، اس کا تصور تک موجود نہ تھا۔
پھر آگے چل کر قریب 20 سال بعد حضرت عثمان زوالنورین کے دور خلافت میں لاتعداد قرآنی نسخے کتابی شکل میں تیار ہوئے اور عرب سمیت روم و فلسطین تک پہنچے۔ ہم کسی کو یہ بھی فراموش کرنے نہیں دینگے کہ اموی دور میں سندھ کا شہر ٹھٹھہ اورعباسیہ عہد خلافت میں بغداد دنیا بھر کیلئے علم و ادب و مختلف فنون کے مراکز تھے۔ پوری دنیا سے طلب علم کے دلدادہ ان مسلم تہذیب کے مراکز کا رخ کرتے، علوم دیتے اور حاصل کیا کرتے تھے۔
دورعباسیہ میں جہاں زوق تعمیرات اپنے نقطہ عروج پر تھا تو وہیں اس دور کی مناسبت سے سائنسی تحقیق کی کوششیں بھی دنیا سے پوشیدہ ہرگز نہ تھیں، یہاں تک کہ پہلی دوربین کی ایجاد سمیت پہلی رصد گاہ کا قیام بھی ہارون کے بیٹے مامون کے دور حکومت میں عمل میں آیا۔ ثابت ہوا کہ عثمانی خلافت میں پرنٹنگ پریس سے متعلق فیصلہ یا فتوی حکمت کی غلطی تو ہوسکتی ہے لیکن مسلم ادب کو تاریکی میں دھکیلنے کی کوشش ہرگز نہیں۔
جی ہاں یہ اسی ارتغرل غازی کے بیٹےعثمان کی ترک عثمانی خلافت کے دورکی بات ہورہی ہے۔ جس پر بنا ایک ڈرامہ آج مغربی دنیا سمیت بعض مسلم حکمران بھی اپنے لیئے ایک بڑا خطرہ سمجھ بیٹھے ہیں اور ترکوں کو مستقبل قریب کا بڑا خطرہ محسوس کرنے سے محفوظ نہیں ہیں۔ شاید یہی ایک بنیادی سبب ہے جو “کورونا” نامی نرالے وائرس کی تقریب رونمائی کا نظارہ پوری دنیا کرنے پر مجبور ہے۔
“چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کوعبث بدنام کیا “کے مصداق کرتے بھی سب خود ہیں اور شور بھی خود ہی مچاتے ہیں۔ ایک عرصے تک عراقی کھچڑی کو مٹن پلاو ثابت کرنے پراس تواتر سے جھوٹ کی مارکیٹنگ کی گئی کہ جھوٹ ہی سچ لگنے لگا اور پھر وقت نے ثابت کردکھایا کہ جسے مٹن پلاو بتایا جاتا رہا وہ دراصل کھچڑی ہے۔ عراق برباد کردیا گیا، لیبیا مزہ چکھ چکا، نائن الیون کی آڑ میں افغانستان میں گھس کر مقاصد حاصل کرلیئے گئے، ایران ہدف ہونے کے باوجود آنکھوں میں آنکھیں ڈالے قائم ہے اور یہاں 2023 میں ترکی خلافت عثمانیہ کا مشن لیئے آہستہ لیکن مسلسل چلتا چلا آرہا ہے۔ مغرب صرف تلملہ رہا ہے۔ ہالی وڈ کی بریو ہرٹ و فرسٹ نائٹ ہوں یا بولی وڈ کی اشوکا، باہو بلی سمیت بے پناہ تاریخی کرداروں پر تیار کی جانے والی فلموں اور ڈراموں پراعتراض نہیں! ۔ 1962میں ہالی وُڈ نے ’’ Lawrence of Arabia‘‘ کے نام سے فلم بھی بنائی جو بہت زیادہ بار دیکھی جا چکی ہے۔ یہ فلم اس عیسائی شخص پر تیار کی گئی جسے عرب میں لاونچ کیا گیا تھا۔ اسی نے ترکی کیخلاف عرب میں عربی وعجمی کی تفریق کو اٹھایا اور لوگوں کو اس پراکسایا کہ عرب پرعجمی نہیں بلکہ عرب ہی کی حکمرانی ہونی چاہیئے۔ اسکے ساتھ ہی ابن سعود کی لاونچنگ ہوئی اور حجاز کا نام تبدیل کرکے سعودی عرب رکھا گیا، نجد کو ریاض قراردینے کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں کی گئیں۔ جس دن ابن سعود عرب کا بادشاہ بنا اس دن ایک جشن ہوا اس جشن میں امریکہ، برطانیہ اور دوسرے ملکوں کے وزیراعظم ابن سعود کو مبارک باد دینے پہنچ گئے۔ غیر مسلم دنیا ایک جانب اپنے ڈرامے اور فلموں پر کروڑوں ڈالرز خرچ کرکے انہیں دنیا بھر میں لاونچ کرتے ہیں۔ انہیں مختلف ایوارڈز سے نوازتے چلے آرہے ہیں لیکن اگر شکایت ہے تو مسلمانوں کی تاریخ پر بنی فلموں اور ڈراموں پر کیونکہ ان سے موجودہ اسلامی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو انکی اپنی اسلامی تاریخ سے آگاہی ہوسکتی ہے۔
یہی سبب ہے جو ارتغرل نامی ترک ڈرامے پر تنقید سمیت اس سے خوف محسوس کیا جارہا ہے اورغیر مسلم معاشرے اپنی جگہ مختالف ہے تو وہیں ایسے مسلم ممالک جہاں بادشاہت ہے میں بھی ارتغرل نامی ڈرامہ وہاں کے سربراہان کیلئے ٹینشن بنا ہوا ہے۔ ارتغرل غازی دراصل ایک تاریخی کردار ہے جو ترکوں کے کائی قبیلے کی جانب سے کی جانے والی جہد مسلسل اور خلافت عثمانیہ کی تاریخ بتانے کے ساتھ خلافت عثمانیہ کی عکاسی کرتا ہے۔
ارتغرل غازی سلمان شاہ کے بیٹے تھے اور ارتغرل کے تین بیٹوں میں سے عثمان وہ بیٹا تھا جس نے خلافت عثمانیہ کی بنیاد ہی نہیں رکھی بلکہ وہ خلافت عثمانیہ قائم کی جو دنیا کے تین براعظموں پر حکمران تھی۔ یہ حکمرانی 625 سالوں تک قائم رہی، 1923 میں جب برطانیہ اور اسکی حلیف طاقتوں نے اس سوا چھ سوسالہ عثمانی خلافت کا خاتمہ کیا تو اس خاندان کے اکثر و بیشتر افراد کو قتل کیا۔ بعضوں کو جلاوطن کیا گیا اور بعض قید کردیئے گئے اور ترکی کو اس خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی متعدد دیگر سخت پابندیوں میں بھی جکڑ دیا گیا۔ 1923 میں معاہدہ لوزان کے تحت ترکی پر آئیندہ سو سال کیلئے پابندی لگادی گئی کہ ترکی سیکولراسٹیٹ بنا رہے گا۔ اپنے ہاں سے تیل نہیں نکالے گا اور صرف تیل خرید کرگزارہ کرے گا۔ نہرسوئز کی مانند تجارتی اہمیت کی حامل اپنی بندرگاہ باز فورس پر اپنے حق سے دستبردار رہے گا اور عالمی دنیا اسے اپنے تجارتی مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہے گی۔
معاہدہ لوزان سے قبل جن تین براعظموں پر خلافت عثمانیہ قائم رہی ان میں چالیس ممالک شامل ہیں جن میں مسلم امہ کے مراکز مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ (حجاز مقدس) سمیت عثمانی خلافت کی عظیم سلطنت ایشیا میں شام، عراق، ایران، آرمینیا، آذربائیجان، اردن، سعودی عرب، یمن، مصر، تیونس، لیبیا، مراکو تک اور یورپ میں یونان روم بوسنیا، بلغاریہ، رومانیہ، اسٹونیا، ہنگری، پولینڈ، آسٹریا، کریمیا تک پھیلی ہوئی تھی۔
اب چونکہ 2023 میں سو سالہ معاہدہ لوزان ختم ہونے جارہا ہے تو مغربی دنیا میں ہونے والی ہلچل کے ساتھ ساتھ ترکی کی تیاریاں بھی بخوبی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ترکی اس سوسالہ پابندی کے معاہدے کے خاتمے پر جہاں ایک جانب اپنی پرانی حیثیت بحال کرنے کی کوشش میں ہے تو وہیں ترکی تیل نکالنے کے ساتھ ساتھ اپنی بازفورس کی بندرگاہ پر بھی کنٹرول حاصل ہوتے ہی مشرق سے مغرب تک پھیلی سمندری آمدورفت سے بھی مختلف ٹیکسز وصول کرے گا۔ ناصرف ٹیکسز بلکہ ایک طرح کی مانیٹرنگ اتھارٹی قائم ہوگی اور سمندری اجارہ داری ترکی کے فیصلوں اور پالیسز سے مشروط ہوگی جبکہ ترکی استنبول کینال پر بھی کام کررہا ہے جو دنیا کیلئے نہر سوئز سے کم اہمیت کی حامل ہرگز نہیں۔
سب سے زیادہ اور نہایت اہمیت کا معاملہ یہ ہے کہ ترکی اسلامی اتحاد کی کوششوں میں ہے۔ اسکے لیئے ترکی نے گزشتہ کئی سالوں سے باقاعدہ عملی جدوجہد شروع کررکھی ہے۔ ایشیائی طاقتوں میں پاکستان، ملائیشیا، ایران، چین اور ترکی کے ساتھ ایک پیج پرہیں جبکہ روس خود کو دور نہیں رکھ پارہا۔ ترکی کی عملی کوششوں سے کولالمپور سمٹ کا انعقاد کیا جاچکا ہے جسکی سب سے بڑی مخالفت سعودی عرب کیجانب سے سامنے آچکی ہے اور شاید یہی وجہ ہے جو پاکستان سعودی دباو میں کچھ پیچھے ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ارتغرل نامی ڈرامے کا پاکستانی سرکاری ٹی وی سے نشر کیا جانا پاکستانی خاموش ووٹ کا عکاس ہے کہ پاکستان کس کے ساتھ ہے۔ ایشیاء سمیت دنیا بھر میں پاکستان صرف ایک ملک نہیں بلکہ پہلی اسلامی ایٹمی قوت ہے اور محل و وقوع کے لحاظ سے خطے میں نہایت اہمیت کا حامل بھی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جسکی ہاں اور نا میں اقوام عالم کے مقدر بدلے جاتے رہیں گے۔ ماضی و حال کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کا معاملہ ہو یا افغانستان پر امریکی حملے اور حکومتوں کی تبدیلی، چائنہ کو کھلے گرم سمندر کی راہداری ہو یا زمینی اقتصادی منصوبے! پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یہی وجہ ہے جو طیب اردگان جہاں دیگر اسلامی دنیا کیلئے آواز و قدم اٹھاتے دیر نہیں لگاتے تو وہیں پاکستان کی جانب انکا جھکائو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں پوری دنیا میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد بھی پاکستان میں ہوچکا ہے جسے اسلامک بم کے نام سے پکارا گیا تھا۔
ہرگز ہرگز مت بھولیئے کہ کوئی غلاف کعبہ کو پکڑ کر روئے اور اللہ سے مانگے لیکن مایوس لوٹے! ایسا ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر یاد رکھیئے ترک جب زیارت کعبہ کرتے ہیں تب غلاف کعبہ پکڑ کر روتے ہیں اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہم سے اپنی ناراضی ختم کردیجیئے، ہمیں معاف کردیجیئے، اور ہمیں اپنے گھر کی میزبانی پھر سے دے دیجئے۔ آمین
2020 سے 2025 کا دورانیہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے بالخصوص 2023 تا 2025 دنیا کی تاریخ میں بہت سی تبدیلیاں لانے جارہا ہے۔ ترکی سوسالہ پابندیوں کے خاتمے سے قبل ہی بہت سی ذہنی و قلبی پابندیوں کا خاتمہ یقینی بنا چکا ہے اور 2023 کے بعد پوری اسلامی دنیا کے نمائیندہ کی حیثیت سے کھل کر سامنے آرہا ہے۔
کس شیر کی آمد ہے کہ رن ! کانپ رہا ہے
نوٹ: اس موضوع پر تشنگی باقی ہے، کوشش کے باوجود تفصیل سے نہیں لکھ سکا۔ آئیندہ انشاءاللہ