تحریر: صائمہ صمیم
قبولیت، مقبولیت اور محبوبیت کے پائیدان پر ادب کا میدان بظاہر خاموش اور گہرا نظر آتا ہے، مگر اس کے اندر جذبات، انا، عزت، شناخت اور احساسات کی کئی پرتیں موجود ہوتی ہیں۔ خاص طور پر جب ہم شعرا کی بات کرتے ہیں، تو مشاعروں کی دنیا میں ہمیں اکثر ایک الجھن نظر آتی ہے اور وہ ہے مشاعرے میں شاعر کا مقام۔
شعرا اکثر مشاعرے میں اپنے مقام پر ناراض اس لیے نظر آتے ہیں کیونکہ مشاعرے میں مقام (نظامت کے تحت دیا گیا ترتیب کا نمبر) شاعر کے وقار، شہرت اور ادبی مقام کا ایک غیر رسمی پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض شعرا کو اگر ایسا مقام دیا جائے جو ان کے خیال میں ان کی ادبی حیثیت یا شہرت سے کم ہو، تو وہ اسے اپنی توہین یا ناقدری سمجھتے ہیں۔
اس ناراضی کی چند وجوہات ہو سکتی ہیں:
پہلا- ادبی مقام کا احساس: اگر کسی سینئر یا معروف شاعر کو جونیئر شعرا کے بعد بلایا جائے تو اسے لگتا ہے کہ اس کی توہین ہوئی ہے۔
دوسرا- شہرت اور مقبولیت کا فرق: بعض اوقات مقبول عوامی شاعروں کو آخر میں بلایا جاتا ہے تاکہ مشاعرہ اختتام پر پرجوش رہے، لیکن سنجیدہ ادبی شعرا اسے ناانصافی سمجھتے ہیں۔
تیسرا- نظامت کی جانبداری: اگر ناظم کسی ذاتی پسند یا تعلقات کی بنیاد پر مقام طے کرے تو اس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
چوتھا- ذاتی انا: بعض شعرا اپنی انا کی وجہ سے بھی معمولی باتوں پر ناراض ہو جاتے ہیں، خاص طور پر جب انہیں لگے کہ ان کے “فین فالونگ” کو کم اہمیت دی گئی ہے۔
یہ ناراضی دراصل مشاعرے کی روایت، انا، اور ادبی وقار کے درمیان ایک نازک توازن کا نتیجہ ہوتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہاں رک کر شہرت اور مقبولیت کے فرق کو تفصیل سے جان لیتے ہیں۔
پہلا- شہرت (فیم):
شہرت کا تعلق لوگوں کے علم اور ادراک سے ہے۔
ایک شخص مشہور ہو سکتا ہے، چاہے وہ اچھے کاموں سے مشہور ہو یا برے کاموں سے۔
شہرت بعض اوقات متنازع یا مخصوص حلقوں میں بھی ہو سکتی ہے۔
مثلاً ایک سنجیدہ شاعر جس کا کلام ادبی حلقوں میں خوب سراہا جاتا ہے، لیکن عوامی سطح پر کم لوگ اسے جانتے ہوں — وہ “مشہور” تو ہے، مگر “مقبول” نہیں۔
دوسرا- مقبولیت (پاپولیرٹی):
مقبولیت کا تعلق لوگوں کی پسند اور دلوں میں جگہ بنانے سے ہے۔
ایک مقبول شخصیت وہ ہوتی ہے جسے عوام کی بڑی تعداد پسند کرتی ہے۔
مقبولیت عموماً مثبت جذبات سے جڑی ہوتی ہے، جیسے محبت، عقیدت یا تفریح۔
مثلاً ایک مزاحیہ شاعر جو عام سامعین کو ہنسا کر مشاعرہ لوٹ لیتا ہے، وہ عوام میں مقبول ہوتا ہے — چاہے ادبی لحاظ سے اس کی گہرائی کم ہو۔
فرق کو سادہ الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے:
“شہرت یہ ہے کہ لوگ آپ کو جانتے ہیں، جبکہ مقبولیت یہ ہے کہ لوگ آپ کو چاہتے ہیں۔”
کئی بار ایک شخص مشہور تو ہوتا ہے مگر مقبول نہیں — اور بعض اوقات کوئی بہت مقبول ہوتا ہے، مگر ادبی دنیا اسے خاطر میں نہیں لاتی۔ مشاعروں میں یہ فرق اکثر ناراضی کی بنیاد بن جاتا ہے۔
یہاں ایک بہت نازک اور دلچسپ سوال ابھرتا ہے-
کیا شہرت، مقبولیت یا مشاعرے میں مقام کو واقعی اتنی اہمیت دینی چاہیے؟
ادب اور فن کے زاویے سے:
ادب اور شاعری تخلیق، احساس، سچائی اور فکری بلندی کا نام ہے۔ اگر کوئی شاعر صرف شہرت یا مقام کے پیچھے دوڑ رہا ہو، تو وہ اپنی اصل راہ سے بھٹک سکتا ہے۔ اصل اہمیت تو تخلیق کی ہونی چاہیے، نہ کہ اس پر ملنے والی داد یا مقام کی۔
مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ:
مشاعرہ ایک سماجی اور عوامی مظہر ہے، جہاں صرف فن ہی نہیں، تاثر، وقار اور ماحول بھی اہم ہوتے ہیں۔ شاعر کی پہچان، عزت اور پذیرائی بھی اس کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہے۔
خاص طور پر جب کوئی شاعر برسوں سے کام کر رہا ہو اور اس کی محنت کا اعتراف نہ ہو، تو ناراضی فطری ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شاعر صرف شہرت یا مقام کو ہی معیار بنا لے، تو یہ تخلیق کے لیے زہر قاتل بن سکتا ہے۔ مگر اگر مقام کا تقاضا صرف انصاف اور ادبی قدر شناسی کے لیے ہو، تو وہ جائز ہے۔
یعنی شہرت اور مقام کی اہمیت ہونی چاہیے، مگر اصل اہمیت ہمیشہ تخلیق، سچائی اور قارئین یا سامعین کے دلوں کو چھونے والے کلام کو ہونی چاہیے۔ جو شاعر اس توازن کو سمجھ جاتا ہے، وہی اصل فنکار ہوتا ہے۔ یہاں سنجیدہ اور باشعور شاعر کی ایک بنیادی صفت کا ذکر بھی ضروری ہو جاتا ہے۔اور وہ ہے خود احتسابی۔
خود احتسابی نہ صرف اس کی شخصیت کو نکھارتی ہے بلکہ اس کے کلام کو بھی جِلا دیتی ہے۔ جو شاعر اپنی انا کا محاسبہ کر سکتا ہے، وہ دوسروں کے دلوں میں رہنے کے قابل ہوتا ہے- کیونکہ پھر اس کے لفظوں میں “میں” کم اور “ہم” زیادہ ہوتا ہے۔
خود احتسابی کی کسوٹی پرپرکھنے کے لیے شاعر کو اپنے آپ سے سوال کرنے ہونگے۔
پہلا- ناراضی کی اصل وجہ کیا ہے؟
اگر شاعر کو مشاعرے میں مقام کم ملنے پر غصہ آتا ہے، تو وہ ایک لمحہ توقف کر کے خود سے پوچھے:
کیا میری ناراضی واقعی انصاف کے لیے ہے؟
کیا میں واقعی ادبی طور پر اس مقام کا حقدار ہوں؟
کیا میرے کلام میں وہ گہرائی ہے جو سامعین کو چھو سکے؟
یا میں صرف انا کی تسکین چاہتا ہوں؟
یہی خود احتسابی کا پہلا دروازہ ہے کہ انسان اپنی ناراضی، حسد، یا دکھ کو تجزیے کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرے۔
2- کیا میں ادب کو بڑھا رہا ہوں یا خود کو؟
بعض اوقات شاعر خود کو مشاعرے کا مرکز سمجھنے لگتا ہے، اور بھول جاتا ہے کہ وہ ادب کا خادم ہے، مالک نہیں۔
خود احتسابی یہاں یہ سوال اٹھاتی ہے:
کیا میں مشاعرے میں آنے والوں کو کچھ دینے آیا ہوں، یا صرف لینے؟
کیا میری شاعری خدمت ہے یا صرف نمائش؟
تیسرا- ادب میں توقیر کا راستہ کتنا صاف ہے؟
ایک سچا شاعر جانتا ہے کہ ادبی مقام صرف نظامت یا بلانے کی ترتیب سے نہیں ملتا، بلکہ اس کی تخلیق، اخلاق اور رویے سے بنتا ہے۔ اگر ایک شاعر واقعی بڑا ہے، تو وہ اپنے طرزِ عمل سے بھی بڑائی کا مظاہرہ کرے گا۔
ابھی تک یہاں یکطرفہ بات ہو رہی تھی یعنی صرف شاعر کے حوالے سے اب ذرا منتظمیں مشاعرہ کے نکتہ نظر سے بھی کچھ بات ہو جائے کہ شاعر کےمقام کا تعین کیسے کیا جاتا ہے ۔
یہ صرف مشاعرے میں بلائے جانے کے وقت یا شہرت سے طے نہیں ہوتا۔ شاعر کا اصل مقام کئی زاویوں سے متعین ہوتا ہے:
پہلا- تخلیقی معیار (ادبی گہرائی):
سب سے پہلے شاعر کے کلام کا معیار دیکھا جاتا ہے۔
اس کے اشعار میں خیال کی ندرت (نیاپن)، احساس کی شدت، زبان کی سلاست، اور فکر کی بلندی ہوتی ہے یا نہیں۔
دوسرا- تسلسل اور مستقل مزاجی:
ایک اچھا شاعر وہ ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ پختہ تر ہوتا جائے، نہ کہ وقتی طور پر چند اچھے اشعار کہہ کر مشہور ہو جائے۔
تیسرا- اثر پذیری (امپیکٹ):
شاعر کے اشعار دلوں کو چھوتے ہیں یا نہیں؟
سماجی، فکری یا روحانی اثر رکھتے ہیں یا صرف الفاظ کا کھیل ہیں؟ جیسے اقبال، فیض، فراز، جون ایلیا۔ ان سب کے کلام نے لوگوں کے سوچنے کے زاویے بدلے۔
چوتھا- ادبی دنیا میں پذیرائی:
نقاد، ماہرینِ ادب، اور اہلِ فن کی رائے بھی اہم ہوتی ہے۔
اگر ایک شاعر کو ادبی حلقے سنجیدگی سے لیتے ہیں، تو یہ اس کے مقام کی نشانی ہے۔
پانچ- رویّہ اور اخلاق:
ادب صرف کلام سے نہیں، کردار سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ عاجزی، برداشت، اور برداشت سے محروم نہ ہونا۔ یہ صفات ایک شاعر کو “بزرگِ ادب” بناتی ہیں۔
چھ- وقت کی کسوٹی:
کئی شعرا وقتی طور پر مقبول ہوتے ہیں، مگر وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ شعرا وقت گزرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔اصل مقام وہی ہے جو وقت کے ساتھ قائم رہے۔
شاعر کا مقام شہرت سے نہیں، بلکہ اس کی فکر، اخلاق، اثر اور وقت کے ساتھ قائم رہنے والے کلام سے طے ہوتا ہے۔ اسٹیج پر کس نمبر پر بلایا گیا، وہ وقتی بات ہے۔ اصل مقام وہ ہے جو دلوں، کتابوں اور تاریخ میں محفوظ ہو جائے۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا