تحریر: شاہ ولی اللہ جنیدی
گذشتہ کئی ماہ سے ملک میں ہونے والی سیاسی سرگرمیاں پردے پر یا پردے کے پیچھے ہو رہی ہیں۔ ان کے بارے میں تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ یہ سرگرمیاں سازشی نوعیت کی ہیں اور ان کا مقصد ایسے حالات پیدا کرنا ہے، جس سے نہ صرف موجودہ حکومت کا دھڑن تختہ کرنا ہے بلکہ ملک کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ متعلقہ فریقین کی کوششوں سے حکومت کے حلیف جماعتوں کو آہستہ آہستہ الگ کرکے تحریک انصاف کی حکومت کو تنہا کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر بھی فارورڈ بلاک بنا دیا گیا ہے جبکہ بعض فریقین کی کوشش ہے کہ ایوان کے اندر سے تبدیلی کے بجائے ملک میں رواں سال نئے سرے سے عام انتخابات کرائے جائیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی کامیابی کے لئےارکان کو عہدے، پیسے ، شہرت یا دیگر قسم کے لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کی ہمیشہ کوشش کرتی ہے۔ ارکان صوبائی یا قومی اسمبلی کی اس قسم کی خرید و فروخت کو سیاسی ہارس ٹریڈنگ یا لوٹا کریسی کہا جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں لوٹا کریسی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سیاست میں کرپشن تو تھی ہی، اب لوٹا کریسی نے بھی ایک مضبوط جگہ بنا لی ہے اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہارس ٹریڈنگ یا لوٹا کریسی کی ابتداء برطانوی راج کے دوران پہلی مرتبہ سندھ میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں دیکھنے میں آتی ہے۔ 7 فروری 1937 کو منعقد ہونے والے انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوسکی تھی۔ انتخابات میں حصہ لینے والی مختلف جماعتون کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد کچھ اس طرح تھیں۔ سندھ یونائٹیڈ پارٹی 18نشستیں، سندھ ہندو سبھا 11نشستیں، انڈیپینڈنٹ مسلم جماعت 9 نشستیں، کانگریس 8 نشستیں، سندھ مسلم پولیٹیکل پارٹی 4 نشستیں، سندھ آزاد پارٹی 3 نشستیں، انڈیپینڈنٹ ہندو جماعت 2 نشستیں، لیبر انڈیپینڈنٹ پارٹی 1 نشست اور چار آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اگرچہ سندھ یونائٹیڈ پارٹی نے سب سے زیادہ 18نشستیں حاصل کی تھیں تاہم اس کے رہنما سرشاہ نواز بھٹو (والد ذوالفقار علی بھٹو) اور حاجی سر عبداللہ ہارون (والد حسین ہارون) کامیاب نہ ہوسکے۔ اس پارٹی کے ایک اہم رہنما خان بہادر اللہ بخش سومرو کامیاب ہوگئے۔
سندھ یونائٹیڈ پارٹی اور کانگریس جماعت اس پوزیشن میں تھی کہ وہ سندھ میں مل کر مخلوط حکومت قائم کرلیں لیکن گورنر سر گراہم نے سندھ مسلم پولیٹیکل پارٹی کے رہنما سر غلام حسین ہدائت اللہ کو جن کی جماعت نے صرف 4 نشستیں حاصل کی تھیں انھیں حکومت بنانے کی دعوت دی۔ تاریخ سندھ (اعجاز الحق قدوسی) کے مطابق گورنر کا اشارہ ملتے ہی سر غلام حسین ہدائت اللہ نے سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کردیا۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما میر بندہ علی تالپور (والد غلام علی تالپور رکن قومی اسمبلی) کو وزارت کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملالیا تھا جبکہ یونائٹیڈ پارٹی کے 15 ارکان اپنی پارٹی کو چھوڑ کر سندھ مسلم پولیٹیکل پارٹی میں شامل ہوگئے اور ساتھ ہی سندھ یونائیٹیڈ پارٹی کے ایک لیڈر سید میراں محمد شاہ (نانا سید نوید قمر) نے بھی اپنی جماعت کو خیر آباد کہہ کر سندھ مسلم پولیٹیکل پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ غلام حسین ہدائت اللہ نے حکومت سازی کے لئے مزید آزاد ہندو گروپ کے ارکان کو ان کے مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی اور انھیں وزارت اور اسپیکر کے عہدہ دینے کا لالچ دیا۔ اس طرح ہندو پارٹی کے کئی ارکان بھی سندھ مسلم پولیٹیکل پارٹی کے اتحاد میں شامل ہوگئے۔
سندھ اسمبلی کا پہلا اجلاس موجودہ سندھ ہائی کورٹ کی عمارت میں ہوا۔ غلام حسین ہدائت اللہ جوڑ توڑ کی سیاست کے سہارے اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے انھوں نے اپنی تین رکنی کابینہ میں مسلمان میر بندہ علی تالپوراور مکھی گوند رام ہندو کو وزیر بنایا اور دیوان بھوج سنگھ کو اسپیکر مقرر کیا گیا جبکہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور کانگریس جماعت نے سندھ اسمبلی میں پہلی مرتبہ اپوزیشن کی بنیاد ڈالی۔ خان بہادر اللہ بخش سومرو (یونائٹیڈ پارٹی) کو قائد حزب اختلاف بنایا گیا تاہم کچھ عرصہ بعد سر غلام حسین ہدائت اللہ سے اختلاف کی بناء پر آزاد ہندو گروپ کے مکھی گووند رام نے وزارت سے استعفی دے دیا۔ جس کی جگہ غلام حسین ہدات اللہ نے آزاد ہند گروپ کی مرضی کے خلاف ایک ہند ڈاکٹر ہمیش داس ایڈوانی کو وزیر مقرر کردیا جبکہ چند ماہ بعد آزاد گروپ کے لئے گئے اسپیکر دیوان بھوج سنگھ انتقال کرگئے ان کی جگہ سید میراں شاہ کو آزاد گروپ کے ایک بار پھر مرضی کے خلاف سندھ کا اسپیکر منتخب کرلیا گیا۔
سرغلام حسین ہدائت اللہ کے اتحادی ہندوارکان ان دونوں فیصلوں پر ان کے خلاف ہوگئے اور انھوں نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی اور یوں غلام حسین ہدائت اللہ کی وزارت بمشکل ایک سال قائم رہ سکی اور اس طرح ہارس ٹریڈنگ یا لوٹا کریسی کا سلسلہ چل پڑا جو آج بھی جاری ہے۔