رپورٹ: مقبول خان
چاک ادبی فورم کے زیر اہتمام سٹی کملیکس میں چاک اردو افسانہ نشست زیر صدارت معتبر افسانہ نگار اخلاق احمد کی زیر صدارت منعقد کی گئی، جس کے مہمان خصوصی جامعہ کراچی سے وابستہ معروف شاعر و مصنف اور سابق بینکار ڈاکٹر خالد محمود قیصر تھے۔ جبکہ میزبانی کے فرائض چاک ادبی فورم کی روح رواں صائمہ صمیم تھیں۔
اردو افسانہ نشست میں کمپئر اور مبصر کے فرائض رحمان نشاط نے انجام دئے۔ نشست کے صدارتی خطبہ میں معروف افسانہ نگار اخلاق احمد نے کہا کہ افسانہ اپنے قاری کو لطف دیتا ہے، اچھے افسانے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دل پر اثر کرتا ہے۔ افسانہ نگار کو لکھتے رہنا چاہئے، اسے نقادوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، افسانہ نگار کے لئے لکھنے کے ساتھ پڑھنا بھی ضروری ہے۔
تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر خالد محمود قیصر نے کہا کہ افسانہ، نثر کی قدیم صنف داستان کی ترقی یافتہ شکل ہے، اچھا افسانہ تخلیق کرنے کے لئے اظہار رائے کی آزادی ضروری ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود قیصر کا کہنا تھا کہ اردو افسانہ اور ناول ایک صدی سے زائد کا سفر طے کر چکا ہے، اس طویل سفر میں افسانے اور ناول نے متعدد تحریکات و رجحانات و اثرات قبول کئے ہیں، جو کچھ وقتی اور کچھ دیر پا ثابت ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح شاعری نے معاشرے کے بدلتے ہوئے رویوں اور اقدار کا اثر قبول کیا، افسانے، نے بھی اسی طرح قبول کیا ہے۔ یہ علامت زندہ ادب کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود قیصر نے چاک ادبی فورم کی روح رواں صائمہ صمیم کی کاوشوں کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ صائمہ بڑی تندہی اور جانفشانی سے افسانے کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہیں، ان کی شبانہ روز کاوشوں سے افسانوی حلقے میں اضافہ ہوگا۔
نشست کی کمپئرنگ کرتے ہوئے رحمان نشاط نے کہا کہ نثر اردو افسانے کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ افسانہ نثر کی مقبول صنف ہے، افسانے کی خصوصیت اس کے اختصار میں ہے۔افسانے کا اختتام چونکا دینے والا ہونا چاہئے، یہی اس کی خصوصیت ہے۔ رحمان نشاط نے افسانے کی اقسام پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چاک ادبی فورم کا مقصد افسانہ اور اس کی اقسام کو فروغ دینے کے لئے سرگرم عمل ہے، اور فورم اپنے مقصد میں اب تک کافی حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔رحمان نشاط ہر افسانے کے اختتام پر اپنا تبصرہ بھی پیش کرتے رہے۔
فورم کی نشست میں نوشابہ رضوان، ماریہ مہوش اور آصف علی آصف نے افسانے پیش کئے۔ آصف علی آصف نے نوشابہ رضوان اور ماریہ مہوش کے افسانوں پر ان کے اسلوب اور تکنینکی پہلو پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جبکہ نوشابہ رضوان کے افسانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ علامتی افسانے وقت کی ضرورت ہیں، کیونکہ ان میں اپنی فکر اور بات کو موثر انداز میں کہا جاسکتا ہے۔ تقریب کی میزبان صائمہ شمیم نے اپنا افسانہ تجاوزات پیش کیا، جسے سب سے زیادہ پسند کیا گیا، صائمہ کا افسانہ حالات حاضرہ کے پس منظر میں تھا۔