تھنک ٹینکس

0
39

تحریر: ڈاکٹرعتیق الرحمان

ہارورڈ، آکسفورڈ، ایم آئی ٹی اور دنیا کی دوسری سینکڑوں یونیورسٹیاں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیقاتی میدان میں بے انتہاء کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ تحقیقی کام واقعی قابل داد ہیں اور کچھ بالکل بھی قابل تحسین نہیں۔

تحقیقاتی اداروں کو عام زبان میں ‘تھنک ٹینک’ بھی کہتے ہیں۔ گو کہ ڈکشنری میں ٹینک کے دو مطلب بتائے گئے ہیں؛ کسی مائع یا گیس کی سٹوریج کے لئے بنایا گیا دھات یا پلاسٹک کا بڑا کنٹینر، دوسرا ٹینک ہم سب کو پتا ہے جو جنگوں میں استعمال ہوتا ہے۔ تحقیق کے نتیجے میں جمع ہو جانے والی انسانی دانشمندی کو جمع کرنے کیلئے کوئی کنٹیر فی الحال نہیں مل سکا۔

ہماری یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینک پاکستان کے معاشرتی یا معاشی مسائل سے بالکل بے تعلق نظر آتے ہیں۔ انہوں نے یہ کام ٹی وی اینکرز یا وی لاگرز پر چھوڑ رکھا ہے۔ ایک بنا بنایا فارمیٹ ہے جس پر کاپی پیسٹ کے ذریعے الفاظ پورے کئے جاتے ہیں۔ اور وہ کسی موامی جرنل میں چھپ جائے تو اسے کافی سمجھا جاتا ہے۔ تحقیق ترقی کی جانب پہلا قدم ہے۔

پچھلے 6 سالوں میں دو مردم شماریاں ہو چکی ہیں، ہم ایک عالمی وباء کا سامنا بھی کر چکے ہیں۔ مجال ہے جو ہمارے تھنکنگ ٹینکس ہیں انہوں نے ان ہاؤس ٹیبل کانفرنس کے علاوہ کچھ نکالا ہو۔ چین اور بھارت دنیا کے کثیر ترین آبادی والے ملک ہیں دونوں نمبر دو اور 3 معیشیتیں بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے ہیومین ریسورس کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کیا۔ اور دونوں ملکوں نے تحیقیق کے نتائج پر عمل درد آمد کیا۔ ہمارے مردم شماری کے نتائج صرف حلقہ بندیوں میں الیکشن جیتنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں ٹورزم کو لے کر ترقی کرنے کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ کبھی کسی نے نہ ڈیٹا اکٹھا کیا اور نہ تجویز دی ہے کہ اس انڈسٹری کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔ تعلیمی میدان میں طلباء کو ہنر مند بنانے کی طرف نہ ایچ ای سی نے کبھی توجہ دی ہے نہ یو نیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس نے-خ۔ آئی ٹی اتنا وسیع میدان ہے جو کہ ہمارے ہاں خالی پڑا ہے۔

کچھ تو سوچو بھائی- آپ سوچنے سمجھنے والے لوگ ہیں، تحیقیق کے طریقہ کار کو عملی زندگی کے مطابق لے کر آئیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں