فلسفہ، تاریخ اور ادب و موسیقی کا سنگم ڈاکٹر رفیق خان

0
40

ملاقات: مقبول خان

چند روز قبل ہمیں فلسفہ، تاریخ، ادب اور موسیقی کا حسین سنگم مجسم دیکھنے اور ان سے شرف تکلم حاصل کرنے کا اتفاق ہوا۔ تفصیلات ان اجمال کی کچھ یوں ہیں کہ گذشتہ اتوار کو ہمیں اپنے ایک بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافی دوست سے ملنے گلستان جوہر جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں ہمارے ایک دیرینہ دوست مقیم ہیں۔ اس دوست سے ملاقات کے دوران حالات حاضرہ، تاریخ ادب اور فلسفہ پر گفتگو کے دوران انہوں نے اپنے ایک پڑوسی کا زکر کرتے ہوئے بتایا کہ موصوف حالات حاضری سمیت ادب، تاریخ اور فلسفہ پر دسترس رکھنے کے ساتھ موسیقی سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ ہمارے دوست نے موصوف کا تعارف ان الفاظ میں کرایا۔

ڈاکٹر رفیق خان کا نام ملک بڑے نیوز چینلز کے سینئر آفیشلز میں سے ہے، جنہوں نے میڈیا چینلز میں نئی جہت کو متعارف کروایا، ڈاکٹر رفیق خان اس وقت ملک کے معروف اینکر پرسن ڈاکٹر دانش کے سینئر پروگرام ریسرچر، کانٹنٹ ایڈیٹر ہیں اور گزشتہ 25 سے زائد عرصے سے الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر رفیق خان استاد بھی رہے ہیں اور ماضی میں مختلف تعلیمی درسگاہوں میں پڑھانے کے ساتھ علم بانٹتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی مختلف نیوز چینلز میں کسی نہ کسی صورت جاری رہتا ہے۔ ڈاکٹر رفیق تاریخ اور فلسفہ پر عبور رکھتے ہیں جو بات کرنے سے حوالاجات کی صورت میں نظر آتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ گائگی میں کمال حاصل ہے، سریلی آوازوں کے ساتھ سارز اور راگ و راگنیو ںسے واقف ہونا بلاشبہ ڈاکٹر رفیق خان کی موسیقی سے دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔

مذکورہ تعارف سننے کے بعد ہمیں ڈاکٹر رفیق خان سے ملاقات کرنے کا اشتیاق ہوا۔ جس پر ہمارے صحافی دوست نے فوری طور پر ڈاکٹر صاحب سے فون پر رابطہ کیا۔ اور ہمارا تعارف کرایا، جس پر ڈاکٹر صاحب نے اسی فون پر ہم سے سے مختصر گفتگو کے بعد ہمیں اپنی رہائشگاہ پر مدعو کر لیا۔ ہم اپنے دوست کے ہمراہ جب ان کی رہائشگاہ کے قریب پہنچے تو انہیں اپنا منتظر پایا۔ گرمجوشی کے ساتھ ملے، پھر وہ میں لے کر اپنی رہائشگاہ کی طرف بڑھے۔ ان کی رہائشگاہ ایک دو منزلہ عمارت کی دوسری منزل پر تھی۔ وہاں تک پہنچنے کے لئے ہمیں خطرناک قسم کی سیڑہیوں پر چڑھنا پڑا۔ ہم ڈاکٹر صاحب کی معیت میں ان کی خوابگاہ میں داخل ہوکر ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ ہمارے سامنے کپڑے سے ڈھانپا ہوا ایک ہار مونیم رکھا ہوا تھا۔ جبکہ موصوف کے بیڈ روم کے دوسری طرف مختلف ضخیم اور درمیانی سائز کتابیں ترتیب کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں۔ ہارمونیم اور کتابوں سے مجھے ان کے موسیقی سے زوق اور مطالعہ سے دلچسپی کے حوالے سے آگاہی ہوئی۔

گفتگو کے دوران ڈاکٹر صاحب حالات حاضرہ، فلسفہ، تاریخ اور ادب پر بے تکان بولتے رہے، اور ہم سنتے رہے۔ اس دوران ہم نے دخل در معقولات دیتے ہوئے کئی نکات بھی اٹھائے، ڈاکٹر صاحب نے بیشتر نکات کو صرف نظر کرتے ہوئے، کچھ نکات پر اپنا تبصرہ بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے دوران گفتگو ترقی پسند رہنماوں بالخصوص سید سبط حسن، لال خان اور افضل گام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا زکر بھی کیا۔ نصف گھنٹہ سے زائد تبادلہ خیالات کے بعد ہم نے اجازت چاہی، تو انہوں نے چند منٹ رکنے کے لئے کہتے ہوئے، ہارمونیم پر سے کپڑے کو اٹھایا، اور سفید و کالے سروں سے کھیلنے لگے۔ بعدازاں انہوں نے چند غزلوں اور مہدی حسن و طلعت محمود کے چند فلمی گانوں کی استھائیاں اور انترے سنائے، اس دوران ہم نے راگ ایمن میں لتا منگیشکر کی ایک فلمی بھجن کی فرمائش کی، لیکن انہوں نے اسے در خور اعتناء نہیں سمجھا۔ اور ہمیں اپنی پسند کے گانے اور غزلیں سناتے رہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب کی ساز و آواز کی ہم آہنگی مہارت کی حامل تھی، لیکن ہمیں ڈاکٹر صاحب کے اس انکشاف نے چونکا دیا، کہ موسیقی انہوں نے کسی استاد سے نہیں سیکھی ہے۔ ہم ایک بار پھر ان سے رخصت ہو کر روانہ ہونے لگے، ہم وہاں پر ڈاکٹر صاحب کی پر مغز گفتگو اور سحر انگیز موسیقی سے لطف اندوز ہو کر روانہ ہورہے تھے تو انہوں نے اگلی نشست کے لئے ہمیں پائے کھلانے کے لئے مدعو کیا۔ اور ہم اپنی دوسری منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔

راستے میں ہمارے دوست نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ہم سے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے کہا تو، تو ہمارا فوری تاثر یہ تھا کہ یہ صاحب علم اور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے کے باوجود ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتا۔ ہمارے دوست نے وجہ پوچھی تو ہم نے کہا کہ وہ اپنی علمیت اور پیشہ ورانہ صلاحتیں رکھنے کے باوجود ترقی کی سیڑھی چلنے کے مروج چلن اور طریقوں نا آشنا ہے یا انہیں استعمال کرنے کے فن سے نا واقف ہے۔ تاہم یہ مختصر ملاقات انتہائی خوشگوار رہی، جس میں ڈاکٹر رفیق خان کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آئے، میں ان پہلووں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی دوسری منزل پر پہنچ گئے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں